’پی کے‘ فلم کی مخالفت اور کمائی دونوں میں اضافہ!
عامر خاں کی فلم ’پی کے‘ کو لیکر دن بدن تنازعہ بڑھتا جارہا ہے۔ مذہبی دقیانوسی اور سادھو سنتوں کو نشانے پر لینے والی عامر خاں کی اس فلم پر کئی ہندو انجمنوں نے اعتراض کیا ہے اور کئی ہندو تنظیموں اور مذہبی پیشواؤں نے اس فلم پر روک لگانے کی مانگ کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلم’ پی کے‘ میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی بے عزتی کی گئی ہے۔ دھرم آچاریوں میں ہندو مسلم دونوں شامل ہیں۔ حالانکہ بھاجپا کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے فلم کی تعریف کی ہے۔ فلم میں ہندو مذہب کے تقاضوں اور روایات و باباؤں اوربھگوان پر تلخ تبصرے کئے گئے ہیں۔ اس فلم کے احتجاج میں اتری ہندو وادی تنظیم جاگرن منچ نے کہا کہ اس فلم پر پابندی لگنی چاہئے کیونکہ یہ فلم ہندو روایات کا مذاق اڑا رہی ہے۔ دوارکا پیٹھ کے شنکر آچاریہ سوامی سروپ آنند سرسوتی نے بھی کہا کہ اس میں ہندو مذہب کی بے عزتی کی گئی ہے۔ مسلم عالم پھرنگی محلی کہتے ہیں کہ فلم میں کئی ایسی باتیں ہیں جن سے گنگا جمنی تہذیب پر خراب اثر پڑ سکتا ہے۔ یوگ گورو بابا رام دیو نے ’پی کے‘ میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے تئیں توہین آمیز رائے زنی اور مناظر کو دکھائے جانے پر سخت اعتراض کیا ہے کہ صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی ہی فلم میں کھلے عام بے عزتی کیوں کی جاتی ہے؟انہوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ’پی کے‘ کا بائیکاٹ کریں تاکہ ہندو مذہب و کلچر کی بے حرمتی نہ ہوسکے۔ فلم کو لیکر وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل، ہندو جن جاگرتی کمیٹی ،اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا نے مظاہرہ کیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبر مولانا خالد رشیدی پھرنگی محلی نے بھی ’پی کے‘ فلم کے کچھ مناظر میں مبینہ طور سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا دیس اور پردیس کا ماحول خراب کرنے کی کوشش جاری ہے۔ ایسے میں فلموں میں ایسی چیزیں قطعی نہیں دکھائی جانی چاہئیں۔ پھرنگی محلی کا کہنا ہے فلم میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں جو بالکل غلط ہے۔ اظہار آزادی کا مطلب کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے۔ اگر فلم میں ایسے منظر ہیں تو سینسر بورڈ کو انہیں ہٹا دینا چاہئے تھا تاکہ فرقہ وارانہ بھائی چارے کا ماحول نہ بگڑے۔ سینسر بورڈ کی چیئرمین لیلا سیمسن کا کہنا ہے عامر خاں کی فلم ’پی کے‘ سے کوئی منظر نہیں ہٹایا جائے گا۔ سیمسن کہتی ہیں کہ فلم کو ریلیز کیا جاچکا ہے۔ ہر فلم کسی نہ کسی مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتی ہے اس پر ہم سین ہٹا کر کسی کے تعمیری نظریئے کو ختم نہیں کرسکتے۔ کوئی سین نہیں کٹے گا ۔ دوسری طرف ’پی کے‘ باکس آفس میں بزنس کے ریکارڈ توڑتے ہوئے صرف9 دن میں 214 کروڑ روپے کی کمائی کرچکی ہے۔عامر خاں نے ’پی کے‘ کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا کہ ساؤتھ کے کٹر پسند نیتاؤں نے مسلم ہونے کی وجہ سے عامر خاں پر ہندو مذہب کی بے عزتی کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس کی تنقید کا انہوں نے جواب دیا ہے کہ ہم سبھی مذہب کا احترام کرتے ہیں۔ میرے سبھی ہندو دوستوں نے فلم دیکھی ہے، انہیں ایسا نہیں لگتا۔ فلم کے ہدایتکار، پروڈیوسر اور کہانی کے مصنف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ راجو ہیرانی ہندو ہیں،ودو ونود چوپڑا ،ابھیجیت ہندو ہیں، فلم پروڈکشن ٹیم کے 99 فیصدی لوگ ہندو ہیں،فلم کے پروڈیوسر ،ڈائریکٹر نے کہا فلم کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ہم ہندو، مسلم ، سیکھ ،یا عیسائی پیدائشی علامت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے۔ہمیں باقاعدہ طریقہ زندگی اور کچھ روایت کی تعمیل کرنی پڑتی ہے۔ کچھ سال پہلے ایک اور فلم آئی تھی ’او مائی گاڈ‘ اس میں بھی ایسے مناظر دکھائے گئے تھے۔ فلم ’پی کے‘ کی کہانی بھی اسی فلم سے ملتی جلتی ہے۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ محض ہندو مذہبی اقدار و روایات پر ہی حملہ کیوں ہوتا ہے۔ کیا عامر خاں اپنے مذہب پر ایسی فلم بنا سکتے ہیں؟یا کسی اور مذہب پر؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں