ملیشیا کے جہازوں کا 9 مہینے میں تیسرا حادثہ!

ملیشین ایئر لائنس سے متعلق ہوائی جہازوں کا9 مہینے میں تیسرا حادثہ ہوگیا ہے۔انڈونیشیا کے سخایا شہر سے سنگاپور کیلئے اڑان بھری لیکن پہنچا نہیں۔ جہاز میں17 بچوں سمیت162 لوگ سوار تھے۔ انڈونیشیائی ایئر ٹریفک کنٹرول سے جہاز کا رابطہ اڑان بھرنے کے42 منٹ کے اندر ہی ٹوٹ گیا۔ پائلٹ نے اے ٹی سی سے خراب موسم کی وجہ سے راستہ بدلکر 38 ہزار فٹ اونچائی پر اڑنے کی اجازت مانگی تھی تب وہ32 ہزار فٹ کی اونچائی پر تھا۔ اسی دوران اس کا رابطہ ٹوٹ گیا۔ گذشتہ9 مہینوں میں یہ تیسرا حادثہ تھا۔ ملیشیا سے جڑے جہازوں کا 18 مارچ کو ایم ایچ370 لا پتہ ہوا تھا، آج تک پتہ نہیں چلا کہ جہاز کا کیا ہوا۔ جہاز میں239 لوگ سوار تھے۔17 جولائی کو دوسرا حادثہ ہوا جب 298 لوگوں کو لے جارہے ایم ایس17 پر یوکرین میں میزائل حملہ ہوا تھا۔ تیسرا یہ ہے جو28 دسمبر کو غائب ہوئے جہازانڈونیشیائی کمپنی ایئر ایشیا کا تھا۔ ایم ایچ370 کاپر اسرار غائب ہونا ابھی تک سلجھا نہیں تھا کہ ایک اور حادثہ ہوگیا۔ ایئر ایشیا کے جہاز کا منگلوار کو ملبہ مل گیا اس کے ساتھ ہی مسافروں کی لاشیں بھی ملنا شروع ہوگئی ہیں۔ شروعاتی خبروں میں40 لاشیں ملنے کی بات کہی گئی ہے۔ تین دن کی زبردست تلاش مہم کے بعد انڈونیشیا کے جاوا ٹٹ سے جہاز کا ملبہ ملا۔ ایئر ایشیا انڈونیشیا کے جہاز کی اڑان بھرنے کے دو سے ڈھائی گھنٹے کے بعد ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ ٹوٹنا ویسا ہی تھا جیسا پچھلے سال8 مارچ کو ایم ایچ 370 غائب ہونے پر ہوا تھا۔ایئر ایشیا انڈونیشیائی کفایتی ہوائی سفر کی خدمت دینے والی ملیشیائی کمپنی ایئر ایشیا کا حصہ ہے۔ ایئر ایشیا کے اڑانوں میں حفاظتی انتظاموں کو لیکر پہلے سے ہی سوال اٹھ رہے ہیں۔2007 ء میں یوروپی یونین نے اپنے یہاں اس کے اڑانوں پر پابندی لگادی تھی۔ اس لئے یہ سوال گمبھیرتا سے اٹھ رہا ہے کہ کیا تازہ واقعہ سرکشا سے متعلق لاپرواہی کا نتیجہ تو نہیں ہے؟ لیکن اس سوال کا اطمینان بخش جواب نہیں مل رہا تو ملیشین ایئر لائنس سے سفر سے پہلے مسافروں کو کئی بات سوچنا ہوگا۔ سب سے بڑا مدعا یہ ہے کہ کیا ہوائی خدمات زیادہ سے زیادہ کفایتی خدمت دینے کی ہوڑ میں حفاظت کے بنیادی انتظاموں سے سمجھوتہ تو نہیں کررہی ہیں، خاص کر وکاس شیل دیشوں میں۔ کیا یہ حیرت انگیز مماثلت ہے کہ اس سال کے تین بڑے ہوائی حادثے ملیشیائی ایئر لائنس کے جہازوں کیساتھ ہی ہوئے۔ انڈونیشیا اور ملیشیا میں جہادی سنگٹھن بھی موجود ہیں۔ کیا یہ حادثے آتنک وادی واقعہ تو نہیں؟ تازہ واقعے کو اگر ہم پہلے کے دو حادثوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں تو 2014-15 میں یہ نظریہ بنتا ہے کہ ہوائی سفر لگاتار غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے ، خاص کر انڈونیشیا اور ملیشیا سے اڑنے والے جہازوں کا۔تکنیکی ناکامی کے اندیشے، سرکشا سے متعلق لاپرواہی اور نامعلوم جگہوں کے اوپر سے گزرنے کی مجبوری نے اڑانوں کے لئے جو جوکھم کھڑا کیا ہے دنیا بھر کی سرکاروں و جہاز کمپنیوں کے آگے اس نظریئے کو توڑنے کی کڑی چنوتی ہے ورنہ جہاز کے سفر سے مسافر کترانے لگیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟