علاقائی پارٹیوں اور علاقائیت کے دور پر مودی بندش چاہتے ہیں!

1989ء کے عام چناؤ کے بعد بھاجپا اور لیفٹ مورچہ کی باہری حمایت سے وشواناتھ پرتاپ سنگھ کی قیادت میں راشٹریہ مورچہ کی سرکار جب بنی تھی اس کے ساتھ ہی ایک پارٹی حکومت کی لمبی روایت پر بریک لگا تھا۔ تب سیاسی پنڈتوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ اب بھارت کی سیاست میں اتحادی سرکاروں کا بول بالا رہے گا۔ اس کے 25 برس بعد پہلی بار لوک سبھا میں کسی ایک پارٹی کو مکمل اکثریت ملی تو یہ اتحادی سیاست کو اور مضبوط کیا۔مہاراشٹر اور ہریانہ اسمبلی چناؤ نتائجنے دکھا دیا ہے کہ وزیر اعظم نے من بنا لیا ہے کہ وہ ان صوبیداروں سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ یعنی وہ علاقائی پارٹیوں سے نجات چاہتے ہیں۔ کانگریس کو کمزور کرنے کے بعد اب مودی کے نشانے پر علاقائی پارٹیاں آنے والی ہیں۔ مودی دو بڑے صوبوں اترپردیش اور بہار میں بھاجپا کی سرکار بنوانے کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ میں چناؤ ہونے جارہے ہیں۔ مودی۔ شاہ کی جوڑی اب ان دونوں ریاستوں میں بھاجپا کا پرچم لہرانے کی کوشش میں لگ گئی ہے۔ مودی ۔ شاہ ایجنڈے کا مطلب یہ ہوا کہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی ۔ اترپردیش میں سپا۔بسپا کے لئے اور بہار میں آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے لئے چنوتی بڑھ گئی ہے۔ دونوں ہی ریاستوں میں کانگریس حاشیئے پر ہے اور ویسے بھی ان ریاستوں میں پارٹی سب سے آخری مقام پر پہنچی ہوئی ہے۔ بہار میں رام ولاس پاسوان کی ایل جے پی پہلے ہی مودی کی پناہ میں آچکی ہے۔ یوپی میں انوپریا پٹیل کی پارٹی اپنا دل بھی لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کے ساتھ آگیا تھا۔ مودی نے لوک سبھا چناؤ میں یوپی اور بہار میں جس طرح کا جادو دکھایاتھا اس کے پیش نظر یوپی میں ملائم سنگھ اور مایاوتی ، بہار میں لالو پرساد اور نتیش کمار کے لئے آنے والے دن چیلنج بھرے ہوں گے۔ جھارکھنڈ ۔جموں وکشمیر چناؤ کے بعد مودی۔ شاہ کی ٹیم پوری کوشش یوپی بہار میں علاقائی پارٹیوں کو صاف کرنے پر لگ جائے گی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ سینٹرل اور مغربی اور نارتھ انڈیامیں بھاجپا کا دبدبہ تقریباً ویسا ہی ہوتا جارہا ہے جیسے1980 کی دہائی تک کانگریس کا ہوا کرتا تھا۔ ساؤتھ میں کرناٹک میں اس کی گہری پکڑ ہے جبکہ آندھرا اور تلنگانہ میں اس کی طاقت شباب پر ہے۔ یعنی آل انڈیا سطح پر پھیلنے کی سمت میں وہ گامزن ہے۔ اس دورے میں وہ کانگریس کو اس کے زیر اثر علاقوں سے تیزی سے بے دخل کررہی ہے ساتھ ہی اتحاد کی سیاست پر بھی روک لگانے میں مودی۔ شاہ کی ٹیم نے بریک لگایا ہے۔ سپا، بسپا ، آرجے ڈی، جے ڈی یو ، نیشنل کانفرنس جیسی علاقائی پارٹیوں کیلئے یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کے ساتھی اوم پرکاش چوٹالہ ، کلدیپ بشنوئی کا جو حال ہوا کیا وہی ان کا مستقبل ہے؟ لیکن اس پر اب انہیں ضرور سوچنا پڑے گا۔ اس وقت غیربھاجپائی سبھی پارٹیاں کسی نہ کسی وجہ سے کمزور حالت میں ہیں۔ تاملناڈو میں جے للتا کو قانونی شکنجے میں جکڑ رکھا ہے وہ بھاجپا اور مودی سے الگ راستہ اختیار کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتیں۔ مودی کا تاملناڈو ہی نہیں بلکہ کیرل تک بھاجپا کی مقبولیت قائم کرنے کا خواب ہے۔ اڑیسہ میں دیکھنا ہوگا کہ نوین پٹنائک اور ان کی پارٹی بیجو جنتادل کیا موقف اپناتی ہیں؟ بھاجپا اڑیسہ میں اپنا وجود قائم کرنا چاہتی ہے وہیں مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس لیڈر اور وزیر اعلی ممتا بنرجی کی ساکھ دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ لیفٹ پارٹیوں کا برا حال ہے۔ مودی سرکار ممتا کی گرتی مقبولیت کو بھنانا چاہ رہی ہے۔ مہاراشٹر میں این سی پی لیڈر شرد پوار اب بھاجپا سے قربت بنانے کیلئے بے چین ہیں۔ ان حالات میں علاقائی پارٹیوں کے سامنے اپنے وجود کو بتانے کی چنوتی منہ پھاڑے سامنے کھڑی ہے۔ علاقائی پارٹیوں کے ایجنڈے کی پول کھول کر بھاجپا اپنا ایجنڈا کھڑا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر وزیر اعظم مودی چناوی ریلیوں میں اٹھائے گئے اشوز اور وعدوں پر آدھا بھی عمل کرسکیں تو بھاجپا وراثتی علاقائی پارٹیوں کو حاشیئے پر لے جاکر سب کا صفایا کرکے مکمل قومی سیاست کی شروعات کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟