ٹو جی گھوٹالے میں منی لانڈرنگ کیس میں پھنسا کروناندھی پریوار!

ٹوجی اسپیکٹرم الاٹمنٹ کا بڑا گھوٹالہ تو نیلامی کے بجائے ’پہلے آؤ پہلے پاؤ‘ کی بنیاد پر ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کو لائسنس دینے کا تھا۔ سی اے جی نے اس میں 1.76 لاکھ کروڑ کا نقصان ہونے کا دعوی کیا تھا لیکن نیرا راڈیہ کے ٹیپوں اور سی بی آئی جانچ سے پتہ چلا کہ سوان اور دیگر نااہل کمپنیوں نے لائسنس کے بدلے ہزاروں کروڑ کی رشوت دی۔ اس میں 200 کروڑ روپے کی رشوت کلیگنار ٹی وی تک پہنچائی گئی۔ اسی معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے سابق وزیر مواصلات اے۔ راجہ ، ڈی ایم کے کے چیف ایم کروناندھی کی بیوی دیالو امل اور ان کی بیٹی ایم پی کنی موجھی سمیت 16 لوگوں پر چارج شیٹ تیار کردی ہے۔یہ معاملہ ایک صنعتی گروپ کو ٹیلی کمیونی کیشن لائسنس دینے سے متعلق ہے۔ انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں200 کروڑ روپے کی رشوت لی گئی۔ کورٹ نے کہا پہلی نظر میں سبھی ملزمان پر معاملہ بنتا ہے۔ ہائی کورٹ نے اپنا حکم سنانے کے بعد سبھی ملزمان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنا الزام تسلیم کرتے ہیں؟ جس پر سبھی نے انکار کردیا۔ اس کے بعد عدالت نے کہا سبھی ملزمان پر مقدمہ چلایا جائے اور سبھی ملزمان پر 200 کروڑ روپے ڈی بی گروپ کے ذریعے کلیگن آر ٹی وی پرائیویٹ لمیٹڈ کو دینے کا الزام ہے۔ رشوت کی اس رقم کا لینا دینا حوالہ کے ذریعے کیا گیا۔ پٹیالہ ہاؤس نے اسپیشل جج او ۔پی سینی نے سبھی ملزمان کے خلاف مالی ترمیم روک تھام ایکٹ کی دفعہ 3-4 کے تحت الزامات طے کئے ہیں۔ اگر ان دفعات کے تحت وہ قصور وار پائے جاتے ہیں تو انہیں کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ 7 سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ٹو جی گھوٹالے کے تار اتنی دور تک پھیلے ہوئے ہیں کہ اس سے جڑے تمام معاملوں کی جانچ اور عدالتی کارروائی کب تک چلے گی یہ بتانا فی الحال تقریباً ناممکن ہے۔ اس گھوٹالے کی جانچ سی بی آئی کررہی ہے لیکن معاملہ سپریم کورٹ میں ہے ۔ سی بی آئی چیف رنجیت سنہا کو اس جانچ سے الگ کرنے کا بھی معاملہ چل رہا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ ٹوجی گھوٹالے کے کچھ ملزمان نے ان کے گھر پر کئی بار ملاقات کی اور آزاد بھارت کی تاریخ میں جب بھی بڑے گھوٹالے کا ذکر ہوگا تو ٹوجی گھوٹالے کا نام خاص طور پر لیا جائے گا۔ قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کس طرح کی گئی ہے اس گھوٹالے سے پتہ چلتا ہے۔اس گھوٹالے کی وجہ سے دیش کو تو نقصان ہوا ہے ساتھ ہی دیش کی معیشت کی ترقی کی رفتار روکنے میں اس گھوٹالے کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس کی وجہ سے منموہن سنگھ کی یوپی اے سرکار کو ایسا کرارا جھٹکا لگا کہ وہ اقتدار سے بھی باہر ہوگئے ہیں۔ نریندر مودی سرکار پر اب یہ منحصر کرتا ہے کہ وہ ایسے گھوٹالوں کو دوبارہ نہ ہونے دیں۔ دیش کے وسائل کے بٹوارے کی کارروائی شفافیت اور انصاف پر مبنی ہونی چاہئے مگر وسائل کا بٹوارہ وزرا کی خواہش اور بندر بانٹ کا ہوگا ایسے تو گھوٹالے ہوتے ہی رہیں گے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ سی بی آئی اس میں غیر جانبدارانہ اور ٹھیک ٹھاک کارروائی کررہی ہے اور قانون اپنا کام کررہا ہے۔ بیشک ملزمان نامی گرامی منتری اور بڑے صنعتکار اور کرپٹ صحافی و دلال ہی کیوں نہ ہوں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟