امریکی وسط مدتی چناؤ میں اوبامہ کو زبردست جھٹکا!

امریکی صدر براک اوبامہ کو وسط مدتی چناؤ میں زبردست جھٹکا لگا ہے۔ اوبامہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کو اپوزیشن ری پبلکن پارٹی نے ان چناؤ میں پچھاڑ دیا ہے۔ منگل کو ہوئے اس چناؤ میں اپوزیشن ری پبلکن پارٹی نے نہ صرف سینیٹ میں اکثریت حاصل کرلی ہے بلکہ ایوان نمائندگان میں بھی آگے بڑھی ہے۔ ویسے نچلے ایوان پرتیندھی سبھا میں پارٹی پہلے سے ہی اکثریت میں ہے۔ مانا جاتا ہے کہ ان نتائج سے اوبامہ کے باقی بچے دو سال بیحد چیلنج بھرے ہوسکتے ہیں۔ ادھر سیاسی تجزیہ کاروں نے دیش بھر میں ڈیموکریٹک پارٹی کے طاقتور لیڈروں کی ہار کو ری پبلکن پارٹی کی لہر کا نتیجہ بتایا۔ کہا جاتا ہے کہ چناؤ کو صدر براک اوبامہ کے کام کاج پر ریفرنڈم مانا جارہا ہے۔ ری پبلکن پارٹی نے صدر اوبامہ کے پورے عہد میں بہت جارحانہ اور اڑیل رخ اپنایا تھا۔ امریکی سیاست کا یہ چلن ہے کہ وسیع اختلافات کے باوجود دونوں پارٹیاں پارلیمانی کام کاج میں تعاون دیتی ہیں اور یہ تعاون پچھلے کچھ برسوں سے بہت گھٹ گیا ہے اور اس سے صدر اوبامہ کئی اہم فیصلے نہیں لے پائے۔ ری پبلکن پارٹی نے اسے ایسے پروپگنڈہ کیا کہ اوبامہ ایک ٹیلنٹ اور چست ایڈمنسٹریٹر نہیں ہیں۔ ری پبلکن کو سینیٹ میں اکثریت کے لئے 6 سیٹیں چاہئے تھیں مگر اس نے چناؤ میں7 سیٹیں جیتیں ، جس سے اس کی پوزیشن کافی مضبوط ہوگئی ہے۔ 8 سال بعد ری پبلکن پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت ملی۔ اس چناؤ میں ری پبلکن ایوان نمائندگان کی سبھی 435 سیٹیں سینیٹ کی 100 میں سے36 سیٹیں اور 50 میں سے36 ریاستوں کے گورنروں کے عہدے کیلئے چناؤ ہوئے تھے۔ تازہ اعدادو شمار کے مطابق ری پبلکن پارٹی نے سینیٹ کی 100 میں سے52 سیٹیں حاصل کرلی ہیں جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کی سیٹوں کی تعداد 43 ہے۔ ابھی کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی سیٹوں کی تعداد53 اور ری پبلکن کی تعداد43 ہے۔ ری پبلکن کو ایوان نمائندگان میں بھی اکثریت مل رہی ہے۔پارٹی ریکارڈ 246 سیٹوں پر آگے تھی۔ 60 سال میں پہلی بار صدر ہیری ٹیومن انتظامیہ کے دوران اسے سیٹیں ملی تھیں جبکہ 8 سیٹوں کے نقصان کے ساتھ ڈیموکریٹک پارٹی 157 سیٹوں پر بڑھت بنائے ہوئے تھی۔ ابھی ایوان میں ڈیموکریٹک پارٹیوں کی سیٹوں کی تعداد199 ہے جبکہ ری پبلکن کے پاس 237 سیٹیں ہیں۔ اس چناؤ کو صدر براک اوبامہ کے کام کاج اور پالیسیوں پر ریفرنڈم مانا جارہا ہے۔ صاف ہے امریکی عوام نے اس کی پالیسیوں کو مسترد کردیا ہے۔ اوبامہ کی مقبولیت کا گراف مسلسل گر رہا ہے۔ اس سے گھبرا کر تقریباً سبھی ڈیموکریٹک امیدواروں نے ان سے چناؤ کمپین سے دور رہنے کی درخواست کی تھی۔ دراصل عراق میں آئی ایس دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں تاخیر اور دیش کی معیشت کو سنبھالنے کیلئے کارگر قدم نہ اٹھا پانے کے لئے اوبامہ کی نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ اب بچے دو سال کا عہد ان کے لئے بیحد مشکل ہونے والا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ صدر اوبامہ کی مقبولیت اس وقت بہت کم ہوگئی ہے دو سال پہلے اچھی اکثریت کے ساتھ دوسری بار صدر چنے جانے کے بعد اوبامہ اچانک سست اور بے یقینی والے صدر لگنے لگے ہیں۔ چاہے ہیلتھ سیکٹر میں بہتری ہو یا وائٹ ہاؤس کی سکیورٹی میں دراندازی کا معاملہ ہو، اوبامہ کی ساکھ کافی گری ہے۔ بطور منتظم ان کا گراف بھی گرا ہے۔ امریکہ میں بسے ہندوستانی لوگوں کے بڑھتے اثر کا انداز اس چناؤ کے نتیجوں سے لگنے لگا ہے۔ منگلوار کو ہوئے وسط مدتی چناؤ کی دوڑ میں شامل ہندوستانی امریکی امیدواروں میں سے کئی اپنی سیٹ جیتنے میں کامیاب رہے۔ مسلسل دوسری بار چن کر آنے والی ساؤتھ کیرولینا کی گورنر نکی ہیلی کیلیفورنیا کی آٹارنی جنرل کملا ہیرس اور تلسی گوارڈ کا نام اس فہرست میں سب سے اوپر آتا ہے۔ امریکی تجزیہ کار مانتے ہیں کہ امریکہ کے چناؤ میں ہندوستانیوں کا اثر بڑھتا جارہا ہے۔ قانون کی پڑھائی کرنے والے ہندوستانی نژاد نیرج اٹمی سب سے کم عمر میں امریکی چناؤ میں کامیاب ہونے والے امیدواروں میں سے ایک ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار اٹمی محض23 سال کے ہیں۔ مغربی ورجینیا سے کامیابی حاصل کرنے والی سامرا بلیئر سب سے کم عمر کی امیدوار ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑی سامرا کی عمر محض18 سال ہے۔ انہوں نے 44 سالہ اپنے حریف کو ہرا کر ایوان نمائندگان میں جگہ بنائی ہے۔ انہوں نے 63 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ اپوزیشن براک اوبامہ کو گھیرنے کی اب پوری کوشش کرے گی اور ان کی مقبولی کا گراف اور نیچے لانے میں لگی رہے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اوبامہ ان چیلنج کا سامنا کس طرح سے کرتے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟