ایک مضبوط اورپائیدارحکومت بھارت کیلئے انتہائی ضروری ہے

16 مئی کو چناؤ نتائج آنے والے ہیں ہم امید کرتے ہیں کہ ووٹروں نے بھاجپا کو واضح اکثریت دے دی ہے کیونکہ دیش کو ضرورت ہے ایک مضبوط اور ایک پائیدار سرکار کی۔ جسے باساکھیوں کا سہارا نہ لینا پڑے۔ ہم نے پچھلے دس سالوں میں دیکھا ہے کہ کس طرح کانگریس کو ان کی اتحادی پارٹیوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ کانگریس بہت کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن اتحادیوں نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی روڑہ ضرور اٹکا دیا ہے۔ زیادہ تر گھوٹالوں میں ساتھی پارٹیوں کا ہاتھ تھا لیکن خمیازہ کانگریس کو بھگتنا پڑا۔ ان علاقائی پارٹیوں کا مقصد پیسہ بنانا ہوتا ہے یا اپنے نجی ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ اندر خانے یہ نہیں چاہتے کے بڑی پارٹی پھلے پھولے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کمزور رہے تاکہ ان کی حمایت پر مجبور ہو۔ آج دیش ترقی چاہتا ہے۔ وہ اچھا انتظام چاہتا ہے حال ہی میں ایک سروے آیا تھا آرگنائزر اور لوک سائکو فاؤنڈیشن کے ذریعے380 پارلیمانی حلقوں میں کرائے گئے سروے میں جو اشو ابھر کر سامنے آئے اس میں زیادہ تر میں روزگار، بجلی، سڑک، ہسپتال، پانی جیسی بنیادی سہولیات کی کمی کو اپنی اہم تشویش بتایا۔ ایک بات جو سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آئی وہ تھی دیش کی ترقی اور اچھا انتظامیہ۔ یہ مودی سرکار تبھی مضبوط ڈھنگ سے دے سکتی ہے جب وہ کسی باہری حمایت پر منحصر نہ ہو۔ سب کو ساتھ لیکر چلنا ضروری ہے لیکن ان پر ہر بات کے لئے منحصر ہونا الگ بات ہے۔ دراصل یہ چناؤسرکار نہیں زندگی بدلنے کے لئے ہوئے ہیں۔ سروے کے اس دور میں اب تک کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی ایم پی نے اپنے چناؤ حلقے میں اس بات کے لئے سروے کرایا ہو کہ اس کے علاقے میں کتنے لوگوں کوپینے کا پانی دستیاب ہے؟ کھانے کا سامان سب کو مل رہا ہے یا نہیں؟ روزگار کی حالت کیسی ہے؟ اسکولوں میں تعلیم کا معیار کیسا ہے؟ ٹیچروں اور بچوں کو بنیادی سہولیات مل رہی ہیں یا نہیں؟ ہسپتال میں درکار تعداد میں ڈاکٹر ہیں، دوائیاں ہیں یا نہیں؟ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک ایم پی کے پاس اپنے حلقے کو لیکرپوری معلومات بھی نہیں ہوتی۔ ان کی کمی اور جنتا سے دوری کے سبب ایم پی اپنے فرائض سے بالکل لاپرواہ رہتے ہیں اور عوام سے کٹ جاتے ہیں۔ آزادی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ بھوک رہی ہے۔ دیش میں اناج کی کمی ہو یا اناج کا ذخیرہ ہو۔اناج بارش میں سڑ جائے لیکن جنتا کو پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا اور لوگ بھوکے سوتے ہیں۔ بہت سے لوگ فاقہ کشی کا شکار ہوتے ہیں، بھوک سے مرجاتے ہیں۔ کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ 16 ویں لوک سبھا چناؤ مہم میں کسی نے کسانوں کی خودکشی کو اشو نہیں بنایا۔ غربت اور بدحالی کی زندگی گزارنے والے لوگوں کی تعداد خوشحال لوگوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ سرکاریں آتی ہیں جاتی ہیں لیکن لوگوں کی زندگی میں تبدیلی نہیں آتی۔ یہ چناؤ عوام کی زندگی کو بدلنے کے لئے ہوا ہے۔ یہ تبھی ممکن ہو پائے گا جب نریندر مودی ایک مضبوط اور پائیدار سرکار بنا پائیں گے۔جب مودی سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے صاف کہا کہ سرکار بنانے کا بھاجپا کا کوئی پلان نہیں ہے۔بھاجپا کا کہنا ہے کہ ہم ایک مضبوط اور پائیدار سرکار بنائیں گے اور جنتا کی زندگی میں تبدیلی لائیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟