کرپٹ افسروں کے خلاف جانچ سے پہلے منظوری کی سہولت غیر آئینی

چناؤ کی ہلچل میں سپریم کورٹ کا ایک اہم دور رس فیصلہ اپنی چھاپ چھوڑنے والا ہے کیونکہ کچھ معنوں میں یہ ایک تاریخی فیصلہ ہی ہوگا۔ یہ کرپٹ افسروں سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ نے پچھلے منگل کو اپنا فیصلہ دیا کے کرپشن کے معاملے میں جوائنٹ سکریٹری یا اس سے اوپر کے اعلی افسر کے خلاف جانچ سے پہلے مجاز افسر سے منظوری لینے کا قانونی جواز ناجائز اور غیر آئینی ہے۔ عدالت ہذا نے کہا کہ اس میں کرپٹ شخص کو سرپرستی دینے کا ٹرینڈ ہے۔ چیف جسٹس آر ۔ ایم لوڈھا کی سربراہی والی پانچ نکاتی آئینی بنچ نے دہلی پولیس اسٹیبلشمنٹ قانون کی دفعہ6-A کے جواز پر غور کے بعد یہ فیصلہ دیا۔ بڑے عہدوں پر بیٹھ کر کرپشن میں ملوث افسروں کو بڑا جھٹکا ہے۔ دیش کی سپریم عدالت کی آئینی بنچ نے اس کوچ کو بھی ختم کردیا ہے جس کی آڑ میں اعلی افسر اپنے کرپٹ کارناموں کوڈھیٹ پن سے چھپا لیا کرتے تھے۔ عدالت نے دہلی پولیس اسپیشل اسٹیبلشمنٹ ایکٹ کی دفعہ6-A کو امتیازی اور غیر انصافی سسٹم بتایا جو نہ صرف کرپٹ لوگوں کے لئے کوچ کا کام کرتی تھی بلکہ آئین کی دفعہ 14 کی مریادا کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس میں قانون کی نظر میں سبھی کے لئے برابری کی گارنٹی دی گئی ہے۔ بڑے افسروں کے خلاف سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سی بی آئی کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کرنے کی سمت میں اہم قدم تو ہے ہی اس کا اثر سرکار کی پالیسی ساز فیصلوں پر بھی دکھائی پڑ سکتا ہے۔ سرکار کی طرف سے یہ دلیل دی جارہی ہے کیونکہ جوائنٹ سکریٹری اور اس کے اپر سکریٹری پالیسی تعین کے عمل اور فیصلوں سے وابستہ ہوتے ہیں اس لئے ان کے خلاف کسی بھی طرح کی جانچ کے لئے اجازت ضروری ہے مگر سوال یہ ہے کہ جن پالیسیوں کے سبب بڑے گھوٹالوں کے راستے کھلتے ہیں اس کے لئے ذمہ دار افسروں کے خلاف بغیر کسی دباؤ کے جانچ کیوں نہیں ہونی چاہئے؟ سرکار کی یہ بھی دلیل تھی کئی بار افسروں کے خلاف شکایت کی جاتی ہے اس دلیل کو بھی بے بنیاد نہیں قرار دیا جاسکتا لیکن آخر کارتھونپی شکایتوں سے صرف سینئر افسر ہی کیوں محفوظ رہیں؟ کیا ایسے جواز اور برابری کے اختیار کی کھلی نہیں اڑاتے؟ سینئر افسروں کے خلاف جانچ میں آڑے آ رہے غیر قانونی جواز کو طے کرنے میں جس ڈیڑھ دہائی سے بھی زیادہ لمبا عرصہ لگا اچھا اشارہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وقت رہتے فیصلہ آگیا ہوتا تو کرپشن سے لڑنے میں کہیں زیادہ مدد ملی ہوتی۔ حقیقت میں جب تک سی بی آئی کو سیاسی دخل اندازی سے آزاد نہیں کیاجاتا یہ امید نہیں کی جاسکتی وہ غیر جانبدار ہوکر کرپشن یا دوسرے مجرمانہ معاملوں کی جانچ کر پائے گی۔ موجودہ عام چناؤ میں بھی کرپشن ایک بڑا اشو بن کر ابھرا ہے مگر لاکھ ٹک کا سوال ہے کیا نئی حکومت چاہے وہ جس پارٹی کی ہو یا محاذ کی ہو سی بی آئی کو اپنے کنٹرول سے آزاد کرنا چاہے گی۔ جس طرح سے یوپی اے نے سی بی آئی کو اپنے سیاسی حریفوں کوان کے ہر الٹے سیدھے کام میں مدد کرنے پر مجبور کیا سب جانتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟