کاشی کا سیاسی رتبہ امیٹھی، رائے بریلی، الہ آباد سے بالاتر ہونے والا ہے!

نیتا ،اداکار،سیاسی حکمت عملی سازوں سے لیکر غیر ملکی میڈیا تک سب کاشی پہنچے ہوئے ہیں۔دنیا کی سب سے قریب ترین سناتن تہذیب کی اس نگری پر پڑوسی پاکستان سے لیکرچین اور امریکہ تک پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ گنگا ریتی پ چھڑی سیاست کی جنگ کا گواہ بننے کے لئے ہر کوئی بے چین رہا ہے۔غیر ملکی طالبعلموں کے لئے تحقیق کا موضوع بنی وارانسی سوشل میڈیا سے لیکر ملک و غیر ملکی اخباروں کی سرخیاں بنیں اور بن رہی ہیں۔ ادب اور کلچر کی نگری اور دیش کے وزیر اعظم کی پارلیمانی سیٹ بننے جارہی ہے۔ امیٹھی، رائے بریلی، الہ آباد، لکھنؤ جیسے مشہور شہر دیش کی سیاست کے مضبوط گڑھ رہے اس دوڑ میں اب کاشی کے مقابلے میلوں پیچھے چھوٹ گئے ہیں۔15 دن کے اندربڑے روڈ شو25 سے زیادہ فلمی ستارے، سیاسی پارٹیوں کے 300 سے زیادہ قومی سطح کے لیڈر اور حکمت عملی سازوں اور گھاٹوں سے گلیوں تک ڈیرا ڈالے غیر ملکی میڈیا کی درجنوں ٹیموں نے شہر کی اس بڑی سیاسی حیثیت کی تصدیق کردی ہے۔ حالانکہ رائے بریلی ، امیٹھی، لکھنؤ ، الہ آباد کے مقابلے وارانسی کو یہ سیاسی شہرت حاصل کرنے میں 65 سال لگ گئے۔1952 ء میں شروع ہوئی کوشش 2014ء میں پروان چڑھی۔ بی ایس سی کی تعلیم حاصل کررہی لڑکی شمع کا درد ہے کہ ووٹ ہمیشہ ہندو مسلمان کے نظریئے سے اوپر اٹھ کر کیوں نہیں پڑتا؟ ہمیں امیدوار میں دیکھنا چاہئے وہ عورت کی تعلیم اور ان کی سلامتی کے لئے کیا کرسکتا ہے۔شمع بنارس کی وہ بیٹی ہے جو کٹر پنتھی اور دقیانوسی نظریئے کو توڑ کر آگے بڑھنے کو بیتاب ہے اور وہ نوجوان پیڑھی کی نمائندگی کرتی ہے۔قزاق پورہ کی ایک اور لڑکی شاہین بھی سوال کرتی ہے آخرکب لوگ مسلمانوں کو پسماندہ کہنا بند کریں گے؟شاہین آئی آئی ٹی کی تیاری میں لگی ہے وہ جینس، ٹاپ اور اسکرٹ پہنتی ہے۔ آخر کیا برائی ہے اس میں؟ کاشی کی جنتا نے نریندر مودی کے استقبال میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اروند کیجریوال کو مایوس کیا اور نہ ہی راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کو مایوس ہونے دیا۔ اس چناؤ کے دوران تمام دباؤ کے باوجود کاشی کے شہریوں نے اپنی صدیوں سے چلی آرہی گنگا جمنی تہذیب کو نہیں چھوڑا۔کاشی ہندو یونیورسٹی میں پالیٹیکل سائنس کے شعبے کی انچارج کوشل مشر کے مطابق 1952ء میں ٹھاکر رگھوناتھ سنگھ نے جواہر لال نہرو کو خط لکھ کر وارانسی سے چناؤ لڑنے کی دعوت دی تھی لیکن نہرو جی نے الہ آباد کو ہی اپنا پارلیمانی حلقہ چنا۔ یہ سلسلہ لال بہادر شاستری سے لیکر اندرا گاندھی تک جاری رہا لیکن کامیابی نہیں ملی ۔1962ء میں رگھوناتھ سنگھ اور 1980ء میں راج نارائن بنام کملا پتی ترپاٹھی کی چناوی جنگ میں وارانسی کو سیاسی سطح پر ضرور مضبوط کیا لیکن وہ مقام نہیں مل پایا جس کا وارانسی کے لوگوں کو ملال تھا۔ 2014ء کے چناؤ میں بھاجپا سے نریندر مودی پی ایم امیدوار بننے اور یہاں سے چناؤ لڑنے کے اعلان سے شہر کی سیاسی اہمیت پھر سے بڑھ گئی۔ پروفیسر مشر کے مطابق اس چناؤ میں شہر کی تہذیب اور معاشرہ دنیا بھر میں پہنچا ہے۔ کاشی کے باشندوں کو نریندر مودی سے بہت امیدیں ہیں۔بابا وشوناتھ اور گنگا کے آشیرواد سے کاشی کے باشندوں کا خواب پورا ہونے جارہا ہے۔ کاشی کا رتبہ رائے بریلی، امیٹھی، الہ آباد اور لکھنؤ سے بھی اونچا ہونے جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟