کیا راہل گاندھی کانگریس کو درپیش چنوتیوں سے نمٹنے میں اہل ہیں؟
عام چناؤ میں یہ ہی لگ رہا تھا کہ کانگریس پارٹی کی بڑی دردشا ہونی طے ہے اور سب سے تشویش کی بات کانگریس کے لئے یہ ہے کہ 100 سال سے زیادہ پرانی پارٹی کا سیاسی مستقبل اور لیڈر شپ دونوں ہی بھنور میں ہیں۔ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ اتنی پرانی تاریخی پارٹی کا یہ حشر ہوگا کہ وہ پارٹی چناؤ نتائج میں50 سے کچھ زیادہ سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی ہے۔ اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ پارٹی کے لیڈروں کا ایک بڑا گروپ نائب پردھان راہل گاندھی کو بچانے کی کوشش میں لگ گیا ہے۔ یہ نیتا چاہتے ہیں کہ ہار کی ذمہ داری راہل پر نہ آئے۔ مگر یہاں سوال کس کی غلطی ہے کس کی نہیں یہ تو ہے لیکن اس سے زیادہ اہم سوال شاید یہ ہے کہ کیا راہل گاندھی سیاست میں دلچسپی رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟ کیا وہ کانگریس پارٹی کی لیڈر شپ کو سنبھال پائیں گے؟ پچھلے 10 سال سے اوپر سونیا گاندھی نے یہ ذمہ داری سنبھال رکھی تھی اور انہوں نے تمام مشکلات کے باوجود پارٹی کو صحیح قیادت دی۔ راہل کی دلچسپی اور باتوں پر زیادہ رہتی ہے۔ بدھوار کو سونیا گاندھی نے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو الوداعی عشائیہ دیا۔ اتنے اہم عشائیہ سے راہل گاندھی غائب رہے۔ ان کی غیر موجودگی موضوع بحث بنی رہی اور قیاس آرائیاں ہوتی رہیں کہ راہل گاندھی بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ اجے ماکن نے راہل گاندھی کی غیر موجودگی پر صفائی دیتے ہوئے کہا راہل شہر سے باہر ہیں اور جمعرات کو لوٹ آئیں گے۔ پارٹی کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کی دلچسپی سیاست میں ہے ہی نہیں اور وہ اکثر فون پر مصروف رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے یہ بھی مانا ہے کہ راہل نے کانگریس کے ڈھانچے کو ہی تباہ کردیا ہے۔کانگریس کے کچھ لیڈروں کا خیال ہے کہ راہل گاندھی کی خودساختہ ٹیم نا تجربہ کاراور بنیادی سیاست سے دوری اور سینئر لیڈروں کے تئیں بد اعتمادی نے پارٹی کی یہ حالت کردی ہے۔ ایسی حالت 10 سال تک دیش کی سرکار چلانے کے باوجود ہوئی، ایک ریاست کی متنازعہ وزیر اعلی نے اس پارٹی کو بے بس کردیا جس نے اب تک سنگھ پریوار کے سب سے مقبول ترین لیڈر اٹل بہاری واجپئی کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ یہ ہی نہیں 2009ء میں بھی جیت درج کی اورصدر ، نائب صدر کے چناؤ بھی جیتے۔ اس سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ 2009 کے چناؤ کے بعد اترپردیش میں کانگریس کی واپسی کی زمین تیار ہوگئی تھی لیکن راہل گاندھی کے صلاحکاروں کی سوشل انجینئرنگ اور انتہائی پسماندگی کارڈ نے پہلے اسمبلی چناؤ میں سب کو چوپٹ کردیا رہی سہی کسر لوک سبھا چناؤ میں پوری کردی۔بہار سے جڑے پارٹی کے ایک دوسرے لیڈر کے مطابق2009 ء میں کانگریس نے بھلے ہی اپنے دم پر وہ سیٹیں جیتیں لیکن ان کا ووٹ فیصد بڑھا اس وقت کے پردیش پردھان انل شرما کی محنت رنگ لانے لگی لیکن تبھی جگدیش ٹائٹلر کو انچارج بنا دیا گیا جس سے پردیش یونٹ میں جھگڑے بڑھ گئے اور نتیجہ کمان محبوب کوثر کو سونپی گئی جنہیں اپنے ضلع کے بارے میں جانکاری تک نہیں تھی اور نتیجہ کانگریس کو درگتی کی شکل میں بھگتنا پڑا اور لوک سبھا چناؤ سے پہلے وہ ایل جے پی میں شامل ہوگئے اور چناؤ لڑے۔ راہل گاندھی کے خود ساختہ مشیروں نے سیاسی پروگراموں کے بجائے نمبروں کا کھیل اور اشتہار و پی آر ایجنسیوں پر ورکروں سے زیادہ بھروسہ کیا۔ کلاوتی سے لیکر بھٹہ پارسول تک انہوں نے جتنی بھی مہم چلائیں انہیں سیاسی پروگراموں میں نہیں بدل سکی۔ راہل بار بار وزیر اعظم یا امیدوار بننے سے انکار کرتے رہے اس سے پارٹی کو نقصان ہوا۔دہلی اسمبلی چناؤ میں اروند کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کو نہ صرف کمتر سمجھا گیا بلکہ اس سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی بھی نہیں بنی۔ اترپردیش سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے ایک سینئر لیڈر کے مطابق پچھلا لوک سبھا چناؤ اترپردیش میں براہمنوں اور مسلمانوں نے کانگریس کو 22 سیٹیں جتانے میں اہم رول نبھایا تھا لیکن اسمبلی چناؤ میں پارٹی میں اس بار پچھڑا واد نہ چلا بلکہ سب سے کم ٹکٹ براہمن اور مسلمانوں کو ملے۔ بلکہ ملائم سنگھ پٹی میں بھی کانگریس نے یادوامیدوار اتارے۔ جن میں زیادہ تر کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ دوسری پارٹیوں سے بلاکر ٹکٹ بانٹنے سے کانگریس ورکر گھر بیٹھ گئے بلکہ کانگریس کی براہمن سیاست سے بھی دوری بنائے رکھی۔ اترپردیش کا انچارج ان مدھو سودن مستری کو بنایا گیا جو غازی آباد اور غازی پور میں فرق نہیں جانتے تھے۔ اب راہل گاندھی، سونیا گاندھی کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈروں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ چناؤ میں اس کراری ہار سے وہ کیسے نمٹیں گے اور مستقبل میں پارٹی کو کس نے کیسے چلانا ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں