بابا وشوناتھ کی کاشی میں چناؤ نہیں کروکشیتر کایدھ ہے(2)...

بابا وشوناتھ کے اس تاریخی شہر کاشی میں صرف چناؤ نہیں ہورہا یہاں تو کروکشیتر کا یدھ ہو رہا ہے۔ایک طرف ہے بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی تو دوسری طرف باقی امیدوار ہیں۔بنارس کی جنگ میں نام واپسی کے بعد چناوی میدان میں 42 امیدوار میدان میں ہیں لیکن42 یودھااکیلے نریندر مودی سے لڑ رہے ہیں۔ لوک سبھا کے آخری مرحلے کے لئے بھاجپا نے اپنے سارے داؤ کھیلنے شروع کردئے ہیں۔ مودی کیلئے اب آخری جنگ شروع ہوچکی ہے۔ان کے مشن272+ کی ساری امیدیں اب 12 مئی کے چناؤ پر ٹکی ہیں۔دراصل پارٹی کیلئے سب سے بڑی چنوتی اترپردیش کی باقی سیٹیں ہیں جن میں سب سے اہم بنارس ہے۔ ما گنگا اور بنارس سے پرانا ناطہ ہے اور ماں گنگا نے بلایا ہے، جیسے جملوں سے کاشی واسیوں کے دل میں جگہ بنانے والے نریندر مودی اب برانڈ بنارس کی بات کرتے نظر آئیں گے۔ بھاجپا نے گذشتہ دنوں مودی کے سپنے پر مبنی ویژن بنارس ڈاکومینٹ جاری کیا۔ نریندر مودی نے گورووار کو ممبئی، دہلی، چنڈی گڑھ کی طرز پر بنارس کو ترقی دینے کا وعدہ کیا۔انہوں نے کہا کہ اس شہر کو بھی مستقل معاشی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گے۔ مودی نے کاشی سے جڑاؤ، گنگا سے لگاؤ کے ساتھ وکاس کے تئیں جھکاؤ ظاہر کرتے ہوئے ووٹروں سے سمرتھن مانگا۔ روہنیا ودھان سبھا حلقے کے جگت پور میں مودی نے کہا کہ ان کے پاس کاشی کے وکاس کا ایجنڈا ہے۔ بینیا باغ میں سبھا کی اجازت نہیں ملنے کے بعد لنکا پر صبح کیا گیا شکتی پردرشن شام کو کاشی کی سڑکوں پر کیسریا سیلاب بن کر امڑ پڑا۔بی ایچ یو کے دروازے پر واقع مالویہ کی مورتی پرشیش نوا کراپنے مرکزی چناؤ دفتر کے لئے چلے نریندر مودی کے استقبال کیلئے پوری کاشی سڑک پر اتر آئی۔ شام6.05 بجے سے بنارس ہندو یونیورسٹی سے چلا مودی کا قافلہ رات قریب سوا نو بجے بھاجپا دفتر پہنچا۔25 منٹ کا یہ راست ہ بھیڑ کی وجہ سے ساڑھے تین گھنٹے میں طے ہوپایا۔ بھلے ہی بھاجپا نے روڈ شو کی اجازت نہیں لی ہو لیکن بی ایچ یو سے مرکزی چناؤ دفتر تک چلے قافلے کے سواگت کے لئے پارٹی نے سڑک کے دونوں جانب کیسریا جوان اتار دئے۔ مودی نے روہنیا کی سبھا میں خود کو کسانوں، بنکروں، غریبوں، بے روزگاروں کے کھیون ہار کے طور پر پیش کیا۔ کٹر ہندو وادی نیتا کی چھوی کے الزاموں سیابھرنے اور گنگا جمنی تہذیب کے شہر سے دل کا ناطہ جوڑنے کا ان کا جدا انداز لوگوں کادھیان اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ بھیڑ کے بیچ منچ پر نیتا جی سبھاش چندر بوس کے قریبی کرنل نظام الدین کے پیر چھو کر بڑوں کے سنمان کے تئیں اپنی نیک نیتی ظاہر کی تو شہنائی کے جادوگر استاد بسم اللہ خاں کی گنگا کے تئیں گہری آستھا کا بکھان کر دور کی کوڑی کھیلے۔ قریب103 سال کی عمر میں چلنے پھرنے سے معزور ہو چکے کرنل نظام الدین کو کچھ لوگ گود میں اٹھا کر منچ پر لے گئے۔ مودی نے ان کا پیر چھوکر جب آشیرواد لیا تو بھیڑ میں کھڑے لوگ چہرے کا پسینہ پوچھنے کے بجائے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔آٹھویں مرحلے کا چناؤ مکمل ہوچکا ہے اب آخری مرحلے میں پوربی اترپردیش کی 18 اوربہار کی6 سیٹوں پر چناؤ ہونا ہے۔ان سیٹوں پر بھاجپا نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔مودی نے یہاں پرپرینکا گاندھی واڈراکے بیان پر اپنے کو پچھڑی جاتی کا بتا کر اپنی پکڑ دلت اور پچھڑی جاتیوں میں بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا فائدہ بھی مل سکتا ہے پچھڑی جاتیاں سماجوادی پارٹی کی طرف اور دلت بہوجن سماج پارٹی کا مضبوط ووٹ بینک ہے۔ اس کی وجہ سے بھاجپا کو ہرانے کے لئے مسلم سپا یا بسپا کوایک ساتھ ووٹ کرسکتا ہے۔ بھاجپا ایک طرف نمو لہر کے سہارے بنارس سیٹ پر بھاری جیت کا دعوی کررہی ہے وہیں جاتی کی بنیاد پرووٹوں کے گنابھاگ کو بھی دیکھ رہی ہے۔ چناؤ انتظامات سے جڑے ایک سینئر نیتا نے بتایا کہ چناؤ میں جاتی سمیکرن حاوی رہے ہیں۔اس کے آگے وکاس اوربہتری کے دعوے بھی اثر نہیں کرتے۔ سینئر بھاجپا نیتا ارون جیٹلی نے کہا کہ بنارس میں جنتا کو طے کرنا پڑے گا کہ ان کا نمائندہ کون ہوگا۔ ایک طرف ہونے والے پردھان منتری نریندر مودی ہیں تو دوسری طرف مختار انصاری کے ذریعے حمایت یافتہ کانگریس امیدوار اجے رائے۔ دراصل وارانسی کی سیٹ محض ایک سیٹ نہیں ہے بلکہ دیش کے مستقبل اور پرتشٹھا کا بھی سوال ہے۔اروند کیجریوال اگر وارانسی میں ووٹروں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں جھولی پھیلا کر بھیک مانگنے آیا ہوں تو اس کے پیچھے ایک وجہ ہے۔دراصل کیجریوال کی ساکھ ہی نہیں عام آدمی پارٹی کا مستقبل بھی اس پر منحصر ہے۔ دوسری جانب وارانسی کے ووٹر محض ایک امیدوار کو نہیں چن رہے وہ دیش کے ہونے والے پردھان منتری کو چن رہے ہیں۔میں یہ بات اب کہہ رہا ہوں نریندر مودی کی ۔آر ایس ایس ، بھارتیہ جنتا پارٹی سبھی کا وقار کاشی پر ٹکا ہے۔وارانسی میں آر ایس ایس نے بھی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں باہر سے آئے سیوم سیوک گھر گھر جاکر ووٹ مانگ رہے ہیں اور کانگریس کے پاس ایسا پرچار کرنے کے لئے مناسب تعداد میں کارکن بھی نہیں ہیں۔ کانگریس کو تو راہل کے 10 مئی کے روڈ شو کے لئے سیوا دل کے کارکن باہر سے بلانے پڑے ہیں۔ بنارس میں ایک نجی گجرات بھی بستا ہے۔ یہاں کا چوکھمبا علاقہ گجراتیوں سے بھرا پڑا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق 400 سال پہلے گجرات سے روزگار کی تلاش میں آئے لوگ یہاں بس گئے۔ چوکھمبا علاقے میں گجراتیوں کی سب سے گھنی آبادی والی گلیوں کا جال ہے اور 50 ہزار سے زیادہ گجراتی یہاں رہتے ہیں۔ نریندر مودی یہ بھی بتانے میں چوک نہیں کرتے کے گجرات میں بسے مسلمان دیش کے سب سے مالدار مسلمان ہیں۔ مودی نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناجائز طور سے دیش میں بسے بنگلہ دیشیوں کو بھی نکال باہر کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ انہوں نے پشچمی بنگال کی مکھیہ منتری ممتا بنرجی سمیت سبھی اپوزیشن نیتاؤں پر ووٹ بینک کی راج نیتی کے چلتے بنگلہ دیشیوں کا سواگت کرنے کا الزام لگایا جس سے ممتا تلملا اٹھی ہیں اور مودی کو گالیاں دے رہی ہیں۔ وارانسی میں نیا اتہاس بننے جا رہا ہے۔ بھگوان شیو کے اس تاریخی شہر کاشی میں عام چناؤ نہیں ہورہا بلکہ کروکشیتر کی لڑائی چل رہی ہے۔ یہاں نریندر مودی بنام سب کی اس لڑائی میں ہمیں تو کوئی شبہ نہیں کہ مودی ہی بھاری بہومت سے جیت درج کریں گے اور باقی سبھی کی رن نیتی دھری دھرائی رہ جائے گی۔وہ بیشک چاہے کتنے ہی چکرویو رچیں نریندر مودی ان چکرویو کو بھید کر وجئی رہیں گے۔ باقی تو چناؤ ہے دیکھیں16 مئی کو ای وی ایم مشینوں سے کیا نتائج نکلتے ہیں۔(ختم شدہ)
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!