مہنگائی،پیداوار میں گراوٹ نئی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہوگا!

دیش کی صنعتی پیداوار میں مسلسل گراوٹ اور بڑھتی مہنگائی اس ماہ کے آخر تک اقتدار سنبھالنے والی نئی سرکار کے لئے اہم چنوتی ثابت ہوگی۔ مرکزی اعدادو شمار دفتر(سی ایس او) کی طرف سے جاری اعدادو شمار کے مطابق صنعتی پیداوار میں مسلسل دوسرے مہینے گراوٹ رہی اور یہ گھٹ کر 0 پوائنٹ فیصدی پر آگئی جبکہ اپریل میں خوردہ مہنگائی بڑھ کر3 مہینوں میں اونچی سطح8.59 فیصدی پر پہنچ گئی۔ پچھلے سال مارچ میں صنعتی پیداوار3.5فیصدی تھی۔ لوک سبھا کے 9 مرحلوں میں چناؤ ہوئے اور جمعہ کو نتیجہ آگیا۔اور اب 21 مئی کو نریندر مودی حکومت سنبھالیں گے۔مودی کیلئے معیشت کو پٹری پر لانا ایک مشکل چنوتی ثابت ہوگی۔ سی آئی آئی کے ڈائریکٹرجنرل چندرجیت بینرجی کہتے ہیں ڈھانچہ بندی اور مینوفیکچر اسکیموں جیسے دہلی ،ممبئی انڈسٹریل کوریڈور پروجیکٹ کو تیزی سے آگے بڑھا کر پالیسی میں شفافیت لاکر سرمایہ کاروں کا بھروسہ لوٹانا ہوگا ۔ ایگزیٹ پول کے نتیجوں سے شیئر بازار میں ایک نئی تیزی ضروری آئی ہے۔ اعدادو شمار کو دیکھیں تو مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ سبزی، پھل اور دودھ کی بڑھی قیمتوں کے چلتے خوردہ مہنگائی 8.59 فیصدی کی سطح پر پہنچ گئی جو تین مہینوں میں سب سے زیادہ ہے۔ بڑھتی مہنگائی کے چلتے ریزرو بینک پر پالیسی ساز شرحوں میں رعایت نہ دینے کا دباؤ بنا رہے گا۔ ریزرو بینک کی ریپوریٹ پالیسی جائزہ میٹنگ3 جون کو ہوگی تب تک نئی سرکار وجود میں آچکی ہوگی اور ترجیحات بھی طے ہوچکی ہوں گی۔ اگر این ڈی اے کی سرکار بنتی ہے تو سب سے بڑی تبدیلی ہمیں اپنی معیشت اور اقتصادی مورچے پر دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ ریزرو بینک کے گورنر رگھورام راجن اور فائننس سکریٹری اروند مایا رام نئی سرکار کے نشانے پر ہوں گے۔ایک اہم سیکٹر جہاں نئی سرکار کو آتے ہی فیصلہ کرنا ہوگا وہ ہے بینکنگ سیکٹر۔ سب سے پہلے بینکنگ سیکٹر کے اٹکے ہوئے فیصلے لینے ہوں گے۔ ریزرو بینک نے جو بھاری بھرکم غلطیاں کیں ان سے پیداوار رک گئی ہے۔ جب ڈالر کے مقابلے روپیہ مضبوط ہورہا تھا تو ہم نے ڈالر کا ریزرو اسٹاک نہ کرنے کی بھاری غلطی کی۔ تین سال سے چھ فیصد نیچے چل رہی اقتصادی ترقی شرح کے لئے ٹارگیٹ 10 فیصد ہے اگر یہ ٹارگیٹ پورا ہوتا ہے تب جاکر ترقی نظر آئے گی۔ بتادیں کہ چین میں یہ 7 فیصد سے اوپر ہے۔ دیش کے لئے تشویشناک سیکٹر ہے پیداوار یعنی مینو فیکچرنگ سیکٹر۔ اس کی گروتھ پچھلے سال سے 0.2 فیصدی سے گھٹ کر0.1 فیصدی رہ گئی ہے۔ دو سال پہلے تک یہ 7.5فیصدی تھی۔ افراط زر پالیسی میں دعوے چھ فیصد تک لانے کے تھے لیکن مارچ میں یہ 8.3 فیصدی رہی اس کے چار فیصدی رہنے پر ہی بازار میں چیزوں کے دام متوازن ہوں گے۔ دیش کا ایک بہت اہم سیکٹر ہے زراعت۔ پچھلے سال اس کی گروتھ1.4فیصد کے مقابلے اس بار 4.6 فیصدی ہے لیکن امید زیادہ ہے کیونکہ ڈی جی پی میں اس سیکٹر کی حصہ دار16.9فیصد ہے۔ میں نے کچھ اہم سیکٹروں کا ذکر کیا ہے ایسے درجنوں اقتصادی سیکٹر ہیں جہاں نئی سرکار کو نہ صرف آتے ہی توجہ دینی ہوگی بلکہ غلط پالیسیوں کو ترجیح کے مطابق صحیح کرنا ہوگا اور ان پر عمل کرنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!