عشرت کیا لشکر کی آتنکی تھی مارنے کا مقصد کیا تھا؟
عشرت جہاں انکاؤنٹر معاملے میں پورے دیش کی نظریں لگی ہوئیں ہیں۔ اس مڈبھیڑ کے 9 سال بعد احمد آباد کے ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ ایچ ایس رٹورڈ کی عدالت میں سی بی آئی نے 179 گواہوں کے بیانات سمیت 1500 سے زیادہ صفحات پر مبنی چارج شیٹ داخل کی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے عشرت جہاں اور اس کے تین ساتھی جاوید شیخ عرف پرنیش پلئی، امجد علی اور امین جوہر کی اغوا کردہ سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل کیا گیا۔سی بی آئی نے 15 جون 2004ء کی صبح ہوئے اس فرضی انکاؤنٹر کے لئے معطل ڈی آئی جی ڈی جی بنجارا سمیت گجرات پولیس کے 7 اعلی افسروں کو اغوا اور قتل کا ملزم بنایا گیا ہے۔ چارج شیٹ میں اس فرضی مڈ بھیڑ کو گجرات پولیس اور سبسڈیری انٹیلی جنس بیورو کی ملی بھگت کا نتیجہ بتایا گیا ہے۔ سی بی آئی کی اس چارج شیٹ کو گجرات کی نریندر مودی سرکار کو پریشانی میں ڈالنے والا مانا جارہا ہے۔ اس کیس کے تین چار اہم پہلو ہیں یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے دیش کی دو بڑی ایجنسیوں آئی بی اور سی بی آئی کو آمنے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ معاملہ سیدھے دیش کی سلامتی سے جڑتا ہے۔ اگر آئی بی کی اطلاعات پرجانچ ہونی شروع ہوگئی تو ہمارے پاس خفیہ اطلاعات آجائیں گی کیسے؟ ہمیں اپنے خفیہ اداروں کی اطلاعات پر بھروسہ کرنا ہوگا نہیں تو کام چلانا مشکل ہوجائے گا۔ اس سمت نظریئے سے ہر پولیس والے کا حوصلہ ٹوٹے گا جس کا سیدھا اثر قانون و نظم پر پڑے گا۔ مرکزی سرکار اور وزارت داخلہ یا جس کسی نے بھی اسے سیاسی شکل دینے کی زبردستی کوشش کی ہے اس نے اپنے دیش کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ دوسرا پہلو ہے کہ انکاؤنٹر کیا فرضی تھا؟ ابھی تک موصولہ اطلاعات اور جانچ رپورٹوں و گواہوں کے بیانوں سے لگتا تو یہ ہی ہے کہ انکاؤنٹر فرضی تھا اس میں گجرات پولیس کے سینئر افسر شامل تھے۔ سی بی آئی نے چارج شیٹ میں ساری سازش کا انکشاف کیا ہے۔ اس بات پر بھی ہمیشہ تنازعہ رہا ہے کہ اگر ایک نامی آتنک وادی ہے تو کیا اس کا انکاؤنٹر جائز ہے؟ تیسرا اہم پہلو جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے وہ ہے کیا عشرت جہاں آتنک وادی تھی یا نہیں؟ اس کے ساتھی آتنک وادی تھے یا نہیں؟ احمد آباد کی خصوصی عدالت میں دائر چارج شیٹ میں متنازعہ آئی بی افسر راجندر کمار کا نام ملزم کے طور پر شامل نہیں ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق راجندر کمار کی فرضی مڈ بھیڑ کی سازش میں رول کی جانچ چل رہی ہے۔چارج شیٹ میں عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کے آتنک وادی ہونے یا نہ ہونے پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ اس پہلی چارج شیٹ میں قتل کے پیچھے مقصد کا ذکر نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس میں کسی سیاستداں کا نام بھی شامل نہیں ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ سی بی آئی نے چارج شیٹ میں گجرات پولیس کے ان افسروں کے ساتھ آئی بی کے رول پر بھی سنگین انگلی اٹھائی ہے۔ اس آدھی ادھوری چارج شیٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مارے جانے والے چاروں لوگوں کا آتنک واد سے کوئی تعلق ہے یا نہیں اور نہ یہ بتایا گیا کہ فرضی مڈبھیڑ کا مقصد کیا تھا؟ ہر قتل کے پیچھے پہلا سوال ہوتا ہے مقصد اور یہاں مقصد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ سی بی آئی نے چارج شیٹ میں ممبئی کے پاس کے علاقے میں رہنے والی عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کے آتنکی ہونے یا نہ ہونے پر کچھ نہیں کہا ہے۔ سی بی آئی افسر نے صفائی یہ دی تھی کہ ہائی کورٹ نے صرف اسے جانچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ مڈبھیڑ فرضی ہے یا اصلی؟ اس دائرے سے آگے جاکر جانچ کرنے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہے۔ عشرت جہاں معاملے میں اس سرکار نے ایسا نمونہ پیش کیا ہے جو سیدھے قومی سلامتی کو ٹھیس پہنچانے کیلئے کافی ہے۔ پہلے تو عشرت معاملے میں خطرناک آتنک وادیوں سے مڈ بھیڑ پر تنازعہ کھڑا کرایا، پھر عشرت کے رول پر سوالیہ نشان لگایاگیا، پھر سی بی آئی کی جانچ کو سیاسی فائدے کے لئے ایک ایسی سمت دے دی گئی کہ عشرت کا بیگ گراؤنڈ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اب پوری طرح سے آتنک وادی سرگرمیوں کی جانکاری دینے والے اور آتنکیوں کے خلاف کارروائی کرنے والے دونوں ایجنسیوں سے متعلق افسر پھنس گئے ہیں۔ عشرت جہاں مڈبھیڑ کے بعد دوسرے آتنکیوں کے خاندان والے انسانی حقوق کمیشن جاتے ہیں اور اسی طرح عشرت کے خاندان والے بھی گئے تھے۔ اس کے بعد ایک مجسٹریٹ نے جانچ کرکے مڈبھیڑ کومتنازعہ بتادیا۔ معاملہ ہائی کورٹ میں گیا اور اس کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی گئی۔ گجرات سرکار نے ہائی کورٹ میں دئے گئے جواب میں کہا عشرت ایک آتنکی تھی اور اس کے ساتھی بھی آتنکی تھے۔ گجرات پولیس کے انٹیلی جنس بیورو نے اطلاع دی تھی کہ وہ لشکر طیبہ کے ہدایت پر نریندر مودی اور لال کرشن اڈوانی کے قتل کی سازش کو انجام دینے والے ہیں۔6 اگست2009ء کو مرکزی وزارت داخلہ نے گجرات سرکار کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں حلف نامہ دائر کیا اور گجرات سرکار مرکزی وزارت داخلہ دونوں ہی اس معاملے کو بند کرنا چاہتے تھے لیکن دو مہینے بعد ہی اس وقت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم نے عشرت معاملے کو سیاسی رنگ دے دیا اور ہائی کورٹ میں دوسرا حلف نامہ دے کر کہا کہ عشرت اور اس کے ساتھیوں کے آتنکی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ سی بی آئی کی جانچ آگے بڑھی تو مرکزی سرکار کو لگا کہ اس میں نریندر مودی ، امت شاہ کو لپیٹا جارسکتا ہے۔ اس کے پیش نظر سی بی آئی کی جانچ کی سمت بدلنی پڑی اور یہ ثابت کرنے میں جٹ گئی کے عشرت اور اس کے ساتھی آتنکی نہیں بلکہ وہ عطر کے تاجر تھے، جنہیں گجرات پولیس نے مار ڈالا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب سی بی آئی وزارت داخلہ سے ان دستاویزوں کی مانگ کررہی ہے جس میں عشرت و اس کے ساتھیوں کا ذکر ہے۔ دستاویز کے مطابق 15 جون 2004ء کو ایک مڈبھیڑ میں گجرات پولیس کی کرائم برانچ نے جن 4 آتنک وادیوں کو مار گرایا ان کے نام تھے امین جوہر عرف عبدالغنی، امجد علی عرف سلیم، جاوید غلام شیخ عرف پرنیش کمار پلئی، عشرت جہاں ۔مارے گئے لوگوں میں سے دو امین جوہر اور امجد علی پاکستانی شہری تھے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے جموں و کشمیر میں داخل ہوئے اور اودھم پور کے فرضی شناختی کارڈ بنوا لئے۔ امجد علی کو لشکر نے مہاراشٹر و گجرات میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی ذمہ داری سونپی تھی۔ غلام شیخ جو1994 ء دوبئی گیا جہاں اسے لالچ دے کر اس کا مذہب بدلوایا گیا۔ لشکر نے اسے اپنی سرپرستی میں لیا۔ دستاویزی ثبوت اس بات کے بھی ہیں کے لشکر نے جاوید اورعشرت کو ایک ساتھ لیا تھا۔جاوید اور عشرت دونوں میاں بیوی کی طرح دیش کے مختلف مقامات کا دورہ کروایا۔ اپنے دورہ کے دوران یہ لوگ عطر کا تاجر ہونے کا دعوی کرتے تھے اور ان دونوں کے لکھنؤ، فیض آباد، احمد آباد ساتھ ساتھ دورہ کرنے کا ثبوت ہے۔ وزارت داخلہ نے2009ء میں اپنے انہی دستاویزوں کو ثبوت کی بنیاد پر گجرات ہائی کورٹ میں کہا تھا کہ عشرت اور جاوید دونوں لشکر طیبہ کے آتنکی تھے۔ بہرحال مڈبھیڑ کے بعد ہی لاہور سے شائع ’غضبا ٹائمز‘ جو لشکر کا اہم اخبار ہے، نے اس بات کو تسلیم کیا کے عشرت جہاں لشکر کی ورکر تھی جسے ہندوستانی پولیس نے مارگرایا ہے۔ امریکی حکومت نے ڈیوڈ ہیڈلی سے پوچھ تاچھ کے بعد بھارت سرکار کو ایک خط بھیجاتھاجس میں صاف طور سے لکھا تھا کہ عشرت جہاں ایک خاتون سوسائڈ بمبار تھی جسے مجلم نے بھرتی کیا تھا۔ امریکی جانچ ایجنسی ایف بی آئی نے یہ بھی صاف کیا کہ لشکر کے اس دستے کی اسکیم تھی کے سومناتھ مندر ، اکشر دھام اور ونائک مندر پر حملے کئے جائیں۔ وہ سارے ثبوت دستاویزی ہیں لیکن وزارت داخلہ نے اس کے باوجود گجرات ہائی کورٹ میں غلط بیان دیا۔ صرف اس لئے کے جانچ سی بی آئی کو مل جائے اور جانچ کی ساری سمت بدل جائے۔ اب جب سی بی آئی کی جانچ ٹیم مرکزی وزارت داخلہ سے ہی دستاویز مانگ رہی ہے تو وزارت داخلہ کے ہوش اڑ گئے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں