کیا سرکار پنجرے میں بند ’طوطے‘ سی بی آئی کوکبھی آزاد کرے گی؟
حالانکہ سپریم کورٹ کی سخت جھاڑ کے بعد یوپی اے حکومت نے سی بی آئی کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرنے کی بات تو کی ہے لیکن کیا واقعی سرکاری پنجرے میں بند سی بی آئی آزاد ہوسکے گی؟ یہ چند دنوں میں سپریم کورٹ کے سامنے وہ رپورٹ رکھی جانی ہے جس میں اس نامور تفتیشی ایجنسی کو سرکار خاص کر سیاسی مداخلت سے آزادکرنے کی نکات پر بحث ہورہی ہے، سرکار کی سفارشیں بہت زیادہ مطمئن نہیں کرتیں اسی بنیاد پر سرکار کو سپریم کورٹ میں حلف نامہ دینا ہے اور اس پر سماعت کے بعد تصویر پوری طرح صاف ہوسکے گی۔ حکومت کی جانب سے سی بی آئی کو آزاد بنانے کے لئے جو اہم تجاویز سامنے آئی ہیں ان کے مطابق وزیر اعظم ، لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر اور دیش کے چیف جسٹس کا کولیجیم سی بی آئی ڈائریکٹرکی تقرری کرے۔ اس کے کام کاج پرریٹائرڈ ججوں کا پینل نگرانی رکھے اور مالی فیصلے لینے میں وزارت پرسنل پر اس کا انحصار کم کیا جائے۔ بیشک یہ تشریح پہلے سے بہتر ہوگی کیونکہ حکومت یا حکمراں پارٹی اب اپنا من پسند امیدوار اس اہم ترین کرسی پر نہیں تھونپ سکیں گے۔ جانچ کاموں میں نگرانی رکھنے کے لئے پہلی بار ریٹائرڈ ججوں کی تین ممبری کمیٹی بنانے کی اچھی تجویز ہے۔ وہ ایجنسی پر باہری خاص کر سیاسی مداخلت کا سایا کم کرے گی۔ اس تجویز میں حالانکہ ایک پینچ ضرور دکھائی پڑ رہا ہے۔ سی بی آئی جب کورٹ کے حکم کے تحت کوئی جانچ چلاتی ہے تب اس کی رپورٹ صرف متعلقہ عدالت کے سامنے ہی رکھی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ کمیٹی کیسے اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے یہ دیکھنے کی بات ہوگی۔ ایک طرف بات اتنے بھر سے سی بی آئی کا سرکار پر انحصار ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا مقدمہ چلانے والی برانچ تو قانون وزارت کے ماتحت کام کرتی ہے۔ ابھی یہ حالت ہے کہ سی بی آئی کے ڈائریکٹر کی تقرری سے لیکر ، مالی ضرورتوں اور مقدمات سے وابستہ کارروائی تک میں سرکار کی سیدھی مداخلت ہوتی ہے۔ کہنے کو سی بی آئی جن معاملوں میں جانچ کررہی ہے اس سے متعلق پیشرفت رپورٹ وہ صرف عدالت کو ہی دے سکتی ہے لیکن کول بلاک الاٹمنٹ کے معاملے میں دیکھا جاچکا ہے کہ اس جانچ ایجنسی کے کام کاج میں جس طرح دخل اندازی کی گئی ہے یہ بات بڑی عدالت کے نوٹس میں آنے اور اس کے ہدایت دینے کے بعدہی سرکار کی طرف سے سی بی آئی کو آزاد کرنے کی پہل کی گئی ہے۔ بھاجپا ترجمان سدھانشو چترویدی نے کہا ہمارا خیال ہے کہ سرکار کے ذریعے سی بی آئی کو آزادی دینے کی کوشش دیر سے بھی ہے اور درست بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیبنٹ کے ذریعے منظور تجاویز سے صاف ہے کہ ایک بار پھر سی بی آئی کو اصلی آزادی دینے کا مقصد پورا ہوتا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ سدھانشو نے کہا مجوزہ خاکے میں سی بی آئی کے حکام کی تقرری کا براہ راست اختیار اپنے پاس رکھنے جارہی ہے۔ اعلی ترین حکام و وزرا کے خلاف جانچ میں سی بی آئی کو اصلی آزادی دئے جانے کا امکان نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یوپی اے ہی نہیں پورے سیاسی طبقے کی منشا صاف ہوتی تو سی بی آئی کی آج یہ حالت نہ ہوتی۔ سرکار پر اس کے سیاسی استعمال کے الزام لگتے ہیں تو اس کی وجہ بھی دکھائی دیتی ہیں مثلاً یوپی اے کو باہر سے حمایت دے رہے سپاچیف ملائم سنگھ یادو نے تو کھلے طور پر الزام لگایا ہے کہ سرکار سی بی آئی کے ذریعے ان پر دباؤ بناتی ہے۔ اگر حقیقت یہ ہے کے اپوزیشن بھی سی بی آئی کے بہانے سیاسی حملے کرنے میں پیچھے نہیں رہتی۔ جانچ کاموں میں قانون وزارت کی مداخلت سی بی آئی کے آگے ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ مقدمہ چلانے یا اس کی سمت طے کرنے سے لیکر بچاؤ فریق کی رہنمائی کون کرے گا جیسے حساس معاملوں میں قانون وزارت کیا ہتھوڑا چلا سکتی ہے ، سی بی آئی پر کنٹرول کا یہ سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ سی بی آئی کی ایک بڑی مجبوری یہ بھی ہے کہ اسے اپنے طریق�ۂ کار کی بنیاد پر حکام سے کام لینے پڑتے ہیں۔ سی بی آئی میں کام کرنے والے زیادہ تر افسر مختلف ریاستوں سے ڈیپوٹیشن پر آتے ہیں اور ایک محدود میعاد تک کام کرکے واپس لوٹ جاتے ہیں ایسے میں ان حکام پر سیاستداں اور افسر شاہ دباؤ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سی بی آئی کیڈر کے افسران میں سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے اور الزام لگایا ہے کہ پارلیمانی کمیٹیوں کی سفارش کے باوجود سرکار جان بوجھ کر دیش کی اس نامور سراغ رساں ایجنسی کا اپنا کیڈر نہیں بننے دیتی۔ الزام یہ بھی ہے کہ پچھلے15 برسوں میں یو پی ایس سی کے ذریعے بھی ایک افسر کی تقرری سی بی آئی کیڈر میں نہیں ہوئی ہے۔ سی بی آئی کو سیاسی دباؤ سے آزادکرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے بھی چناؤ کمیشن یا سی اے جی کی طرح پوری طرح سے مختار بنایا جائے۔ اس کے لئے ایک وسیع سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے جو فی الحال دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں