اس تباہ کن ٹریجڈی کیلئے ذمہ دار کون؟ جانچ کرنا ضروری ہے
لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج نے اتراکھنڈ سرکار پر جم کر ہلا بولا ہے۔ انہوں نے تو وزیراعلی وجے بہوگنا کی حکومت کو برخاست کرنے کی مانگ کرڈالی ہے۔ برخاست تو کیا کروگے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اتراکھنڈ ٹریجڈی سے سبق لینا جتنا ضروری ہے اس کے ذمہ دار لوگوں کو سبق سکھانا بھی ضروری ہے۔ اس حادثے کو قدرتی آفت کہہ کر پلہ جھاڑنے والوں سے حساب نہیں لیں گے تو دیش ان ہزاروں بدقسمتوں کا گنہگار بن کر رہ جائے گا جو ایک سنگین اور ناکام سسٹم کا شکاربن کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اتراکھنڈ میں آئی تباہی کے بعد ریاستی حکومت سمیت موسم محکمہ اور قومی آفت ، کارروائی یعنی این ڈی آر اپنی اپنی صفائی پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ریاست کے محکمہ موسمیات کا دعوی ہے کہ ٹریجڈی کے دو دن پہلے سے تمام سرکاری محکموں کو امکانی آفت کو لیکر آگاہ کرنا شروع کردیا تھا اور کہا گیا تھا کہ چار دھام یاترا کو فوراً روک دیا جائے۔ اس آگاہی میں دو ٹوک کہا گیا تھا کہ جو تیرتھ یاتری پہنچ چکے ہیں انہیں فوراً محفوظ مقامات پر پہنچایا جائے۔ محکمہ موسمیات کی یہ آگاہی ریاست کے چیف سکریٹری سے لیکر تمام اعلی حکام کو پہلے ہی دے دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ دہلی میں واقع محکمہ موسمیات کے ہیڈ کوارٹر تک یہ اطلاعات بھیجی جارہی تھیں لیکن نہ تو ریاستی حکومت اور نہ ہی مرکزی حکومت کی نیند کھلی۔ اتنا بھی نہیں ہوا کے جب16 جون کو بارش شروع ہوئی تو رشی کیش میں اوپر جانے والے مسافروں کو روک لیا جائے۔ ماتا ویشنو دیوی بھکت بتا سکتے ہیں کہ جب عمارت میں زیادہ بھیڑ ہوجائے تو مسافروں کو کچھ دن کٹرا میں رکنا پڑتا ہے اور جب کٹرا فل ہوجاتا ہے تو جموں میں ہیں روک لیا جاتا ہے اور آگے نہیں جانے دیا جاتا۔ اگر رشی کیش میں ہی مسافروں کو آگے بڑھنے سے روک دیا جاتا تو مرنے والے یا لاپتہ ہونے والے لوگوں کی تعداد اتنی نہ ہوتی۔ یہ سراسر لاپرواہی کا معاملہ ہے۔ آج محکمہ موسمیات کے چیف سکریٹری کا مذاق اڑ رہا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں ایسی وارننگ برسوں سے دیکھی اور سنی جارہی ہے۔ یہ ہی نہیں کاش امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے 25 دن پہلے جاری کی گئی سیٹیلائٹ تصاویر سے ملے اشاروں کو بھانپ لیا جاتا تو کیدارناتھ وادی میں مچی تباہی سے شاید بچا جاسکتا تھا۔ناسا نے جو تصاویر جاری کی ہیں ان سے صاف ہورہا ہے کہ کس طرح کیدارناتھ کے اوپر موجود چوراباری کمپین گلیشیئر کی کچی برف معمول سے زیادہ مقدار میں پانی بن کر رسنے لگی ہے لیکن ہندوستانی سائنسداں یہ ناپنے میں ناکام رہے ہیں کے تیزی سے پگھل رہی گلیشیئر ایسی خوفناک تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ وارننگ کے ملنے بعدقدم اٹھانے کی بات تو دور رہی مسافروں کو ہوشیار کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ ریاست کی انتظامیہ سے یہ کون پوچھے گا کہ ایسی بربادی اور ہزاروں اموات کی ذمہ داری ان پر کتنی بنتی ہے؟ مقامی پولیس اور انتظامیہ کے کچھ افسران نے بیشک اپنے سطح پر مسافروں کو بچانے کی کوشش کی ہے گوری کنڈ کے چوکی انچارج ہیمراج راوت نے وقت رہتے خطرے کو بھانپ لیا اور اپنے افسروں کو لگاتار آگاہ کرتے ہوئے کچھ نہ بنا تو خود لاؤڈاسپیکر لیکر مسافروں کو آگاہ کرنے میں لگ گئے لیکن حکومت نے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی مسافروں سے جیب بھر رہے ہوٹل اور دھرمشالاؤں نے ان کی سنی۔ اس کا نتیجہ کتنا خوفناک سامنے آیا وہ بہت تکلیف دہ تھا۔ یہ تو کیدارناتھ مندر میں بھرے 8-10 فٹ کے ملبے کو ہٹانے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ ردرپریاگ کے ضلع انتظامیہ نے کیدار وادی میں بکھری پڑی لاشوں کی حفاظت اور تباہی کو دیکھتے ہوئے لوگوں کے گوری کنڈ سے آگے جانے پر روک لگا دی ہے۔ 13 دن گذر جانے کے بعد بھی ان لاشوں کو نہ اٹھائے جانے سے وادی میں وبا جیسے حالات پائے جاتے ہیں ۔ موجودہ ٹریجڈی بھارت کی سب سے بڑی ٹریجڈیوں میں سے ایک ہے۔ 1993ء میں لاتور زلزلے میں 20 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ 2001ء میں گجرات میں آئے زلزلے میں 30 ہزارلوگوں کی موت ہوئی تھی اور 1 لاکھ67 ہزار لوگ زخمی ہوئے تھے۔ 2004ء میں آئی سونامی میں 10 ہزار لوگ مارے گئے تھے لیکن کیدارناتھ ٹریجڈی میں کتنے لوگ مرے اس کا شاید کبھی پتہ چلے لیکن اتنا ضرور ہے یہ تعداد ہزاروں میں ہوگی۔ نقصان کا تو اندازہ نہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس تباہی کو لیکر ابھی تک اتراکھنڈ حکومت نے کسی طرح کی جانچ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ جانچ ہونے پر یہ بات سامنے آئے گی کے اس ٹریجڈی کی خاص وجہیں کیا رہیں؟انتظامیہ سے کہاں چوک ہوئی اور مستقبل میں اس سے کیا سبق سیکھا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں