ملائم نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی چلی سیاسی چال


کوئلہ بلاک الاٹمنٹ سے وابستہ سی این جی رپورٹ پر پارلیمنٹ میں مچے ہنگامے میں جمعرات کے روز ایک نیا موڑ آگیا جب ملائم سنگھ نے ایک نیا شوشہ چھوڑدیا۔ملائم سنگھ یادو جو سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں، نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے لیفٹ فرنٹ۔تیلگودیشم کے ساتھ پارلیمنٹ میں تعطل ختم کرنے کے لئے نیا فارمولہ پیش کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ کوئلہ معاملے میں کسی کی طرف داری نہیں کررہے ہیں لیکن اتنا چاہتے ہیں کہ اس سنگین معاملے میں پارلیمنٹ کے اندر کھلی بحث ہو۔ جبکہ بھاجپا کے لوگ ضد پر آمادہ ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے مطالبہ کردیا کہ متنازعہ کوئلہ بلاک میں جو بھی گڑ بڑی ہوئی ہے اسکی جانچ سپریم کورٹ کے ایک جسٹس سے کرا لی جائے لیکن سی اے جی رپورٹ میں پارلیمنٹ کے اسی اجلاس میں وسیع بحث کی ضرورت ہے۔ جہاں ملائم نے ایک طرف کانگریس کو اپنا موقف رکھنے کے لئے راہ ہموار کردی وہیں اپوزیشن کے اتحاد کو توڑنے کی کوشش کر کانگریس کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔لیفٹ فرنٹ تیلگودیشم کو ساتھ لیکر وہ 2014ء کے لئے نیا مورچہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ملائم سنگھ کے اس سیاسی داؤ کو 2014ء کے لوک سبھا چناؤ سے جوڑ کر دیکھا جانا چاہئے۔ کوئلہ بلاک الاٹمنٹ معاملے کو ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے سے بھی بڑا گھوٹالہ مانا جارہا ہے اوربھاجپا نے اس معاملے پرآسمان سر پر اٹھا کر سیدھے وزیر اعظم منموہن سنگھ کا استعفیٰ مانگ لیا ہے۔ کوئلے پر مچے اس کہرام سے کٹہرے میں کھڑی یوپی اے سرکار کی سیاسی مشکلیں بھانپتے ہوئے ملائم نسگھ نے یہ چال چلی ہے لیکن یوپی اے سرکار کو حمایت دے رہی سپا پر کسی طرح کا الزام نہ لگے اور اگلے چناؤ کے لئے اپنی پوزیشن کو مضبوط کرسکے اس لئے اب تک بھاجپا بنام کانگریس کی جنگ بنی سی اے جی کی رپورٹ کے نتیجوں کی سپریم کورٹ کے جج سے جانچ کرانے کا مطالبہ کر ملائم سنگھ نے ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔ اس مبینہ تیسرے مورچہ بنانے کی کوشش میں ایک فائدہ ملائم سنگھ کو یہ بھی ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو بھاجپا سے دور کرلیا ہے۔ خیال رہے کہ ملائم سنگھ یادو ایسے نیتا ہیں جنہوں نے وسط مدتی چناؤ کی بات کہی تھی اور ان کا نشانہ 2014ء میں وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنا ہے۔ ان کی سیاست ہے کہ انہیں اترپردیش سے60 سیٹیں مل جائیں ۔تیسرا مورچہ اتنی سیٹیں لے آئے تو وہ اتفاق رائے سے لیڈر چن لئے جائیں۔ کانگریس اس بات کو بھانپتے ہوئے بھی ملائم کا ساتھ دینے پر مجبور ہے لیکن کانگریس کے حکمت عملی ساز سونیاگاندھی کو یہ سمجھانے میں لگے ہیں کہ ملائم سنگھ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جو بات کانگریس سمجھ نہیں پا رہی ہے وہ یہ ہے کہ ملائم سنگھ وقت سے پہلے چناؤ کی صورت میں اپنی تیاری میں کوئی کسر چھوڑنا نہیں چاہتے۔ 9 ستمبر سے اترپردیش کے وزیر اعلی اکھلیش یادو بے روزگاری بھتہ بانٹنے جارہے ہیں۔ اس کے بعد ’کنیا ودیا دھن‘ اور پھر لیپ ٹاپ کی باری ہے۔ بے روزگاری اور لیپ ٹاپ ہی وہ اشو تھا جس نے نوجوانوں کو پارٹی کی طرف کھینچا تھا۔ اسی درمیان کولکتہ میں پارٹی کی قومی ایگزیکٹو کی میٹنگ بھی ہے اس میں سبھی کو پارٹی قومی سطح پر سندیش دینا چاہتی ہے۔سماجوادی پارٹی اترپردیش صدر و وزیر اعلی اکھلیش یادو عام آدمی تک سرکار کے کارناموں کو پہنچانے کے لئے سبھی اسمبلی حلقوں میں 15 سے30 ستمبر 2012کے درمیان ورکر سمیلن منعقد کرنے جارہے ہیں۔ اسی طرح ملائم سنگھ یادو نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کے لئے یہ سیاسی چال چلی ہے۔ پتہ نہیں کانگریس کو سمجھ میں آئے گایا نہیں؟ بھاجپا کے لئے بھی یہ ایک چیلنج ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!