امریکی احتجاج کے باوجود تہران میں ناوابستہ کانفرنس
ناوابستہ تحریک (نیم) کی 16ویں چوٹی کانفرنس کا میزبان ایران کو بہت دنوں سے انتظار تھا شاید ایران کو اسی وقت کا انتظار تھا جب دنیا کے اسٹیج پر اپنا غصہ نکال سکے اور اپنی دلیلوں سے ناوابستہ ممالک کے نظریات بدل سکے۔ جمعرات کو ناوابستہ چوٹی کانفرنس کے افتتاح کے ساتھ ہی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے براہ راست حملہ ان پر کیا جو ایران کے نیوکلیائی پروگرام کو روکنے کے لئے دباؤ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ خامنہ ای جہاں ایک طرف اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی موجودگی میں سکیورٹی کونسل کی تاناشاہی کی کھلے طور پر تنقید کی وہیں دوسری طرف وہ امریکہ اور مغربی ممالک پر الزام لگانے سے نہیں کترائے کہ وہ نیوکلیائی توانائی میں استعمال پر صرف اپنا اختیار بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ خامنہ ای نے کہا کہ امریکہ اپنی طاقت کے دم پر ایران جیسے ملکوں پر نا مناسب دباؤ بناتا آیا ہے۔ افغانستان ،عراق اور افغانستان میں قتل کے لئے امریکہ ذمہ دار ہے۔ یہ الزام ایران کے صدر احمدی نژاد نے لگایا۔ انہوں نے امریکہ پر ان دیشوں میں منظم طریقے سے لوگوں کو قتل کرنے کا الزام بھی لگایا۔ ناوابستہ ممالک کی چوٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احمدی نژاد نے کہا کہ 120 ملکوں کی اس تنظیم کو عالمی برادری کی حکمرانی میں حصہ لینے کے اپنے مقاصد اور خواہشات کے بارے میں پھر سے سوچنا چاہئے۔ انہوں نے کہا اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے برتاؤ کے سبب قبضہ کرنے اور جارحیت اور اذیتیں اور جرائم کو تقویت ملی ہے۔ دراصل 50 کی دہائی میں امریکہ سوویت روس کے درمیان جاری خطرناک سرد جنگ کے جواب میں شروع ہوئی ناوابستہ تحریک آہستہ آہستہ سرد جنگ ختم ہوتے اپنی اہمیت کھوتی گئی۔ لیکن امریکہ اور مغربی ممالک کی پہل پر بین الاقوامی اچھوت اعلان ہوچکے ایران نے اس چوٹی کانفرنس کے ذریعے سے یہ بتانا چاہا ہے کہ آج بھی وہ اکیلا نہیں ہے۔ قریب دو درجن ملکوں کی لیڈر شپ کی موجودگی ایران کا حوصلہ بڑھانے والی تھی۔اقوام متحدہ سکریٹری جنرل بانکی مون نے کانفرنس میں موجود ہوکر ایران کو خوش کردیا تو تین دہائیوں کے بعد مصر کے کسی سرکردہ لیڈر کی آمد اس کے لئے بونس ملنے جیسی بات تھی۔ ایران کا جو بھی مقصد رہا ہو۔ اقوام متحدہ سکریٹری جنرل کا اپنا ایجنڈا تھا۔ بانکی مون نے ایران کی نیوکلیائی تیاریوں پر حملہ بول دیا جس میں درپردہ دھمکی چھپی تھی۔ بانکی مون نے ایران کو خبردار کیا اگر اس نے سکیورٹی کونسل کی ہدایت پر عمل نہیں کیا اور نیوکلیائی ہتھیاروں کی چپ چاپ تیاری کی ہوئی ہے ۔ اس میں شک نہیں جنگ چھڑنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ ادھر مصر کے نئے صدر محمد مرسی نے شام میں اقتدار کے خلاف انقلابیوں کا گنگان کرکے ایران کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی گئی۔ یہ چوٹی کانفرنس الٹی ایران پر بھی بھاری پڑ گئی۔ مرسی نے عرب ممالک میں تاناشاہی کے خلاف کامیاب ہورہے انقلاب کی شان میں قصیدے پڑھ کر ایران کو بے چین کردیا۔ جو خود تین دہائیوں سے اسلامی کٹر پسندی کے خلاف کھڑے جمہوریت نوازوں کی آواز دبانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ شام میں تاناشاہی کے خلاف جاری لڑائی میں ایران کھل کر وہاں کی سرکار کے ساتھ ہے جس کی پرزور مخالفت کی گئی۔امریکہ اور مغربی ممالک کے علاوہ تمام عرب ملک شرکت کررہے ہیں۔ سوویت روس کی تقسیم کے بعد ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو یہ جانتے تھے کہ اب اس تحریک کی کوئی ضرورت نہیں رہی اس لئے اسے سمیٹا جانا چاہئے۔ اگر آج بھی قریب 120 ممالک تحریک کے ممبر ہیں جن میں سے قریب30 ملکوں کے سربراہ مملکت یا اقتدار اعلی نے تہران کانفرنس میں حصہ لیا۔بیشک تحریک آج کمزور ہے۔ آج اس کی حالت اور سمت کو لیکر شبہ پوری طرح سے ختم نہیں ہوا ہے لیکن اس کی اہمیت آج بھی ہے۔ اس میں ایک طرف ایران اور وینزویلا جیسے ممالک ہیں جن کا امریکہ کے ساتھ ٹکراؤ ہے تو دوسری طرف بھارت جیسے ملک ہیں جو امریکہ کے ساتھ دوستی اور تعاون کا رشتہ مضبوط کررہے ہیں تو اپنے پرانے اور آزمائے ملک مصراور روس سے بھی دوستی بنائے ہوئے ۔ ایران تو اسی بات سے خوش ہے کہ امریکہ کی مخالفت کے باوجود تہران میں ناوابستہ چوٹی کانفرنس کامیابی کیساتھ منعقد ہوئی اور ختم ہوگئی۔ (انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں