آئینی اداروں کا وقار،ساکھ بنائے رکھنا ضروری


یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ یوپی اے سرکار آئینی اداروں پر حملے کررہی ہے اور ان اداروں کے وقار پر چوٹ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ کوئلہ کھدائی الاٹمنٹ پر سی اے جی کی رپورٹ کو لیکر حکمراں فریق پارٹی کی بے چینی اور ساتھ ہی اس آئینی ادارے کے نتائج سے اتفاق نہ کرنا تو تب بھی سمجھ میںآتا ہے لیکن اسے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور یہاں تک کہ اس پر کیچڑ اچھالنایہ ایک عجیب و غریب حرکت ہے۔ یہ پورے دیش کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ سی اے جی پر پہلے خود وزیراعظم نے تنقید کی اور اس کے بعد تو کانگریس کی ٹولی سی اے جی پر ٹوٹ پڑی۔ کانگریس سکریٹری جنرل اور بڑبولے لیڈر دگوجے سنگھ نے تو ایک نیا شوشہ چھوڑدیا ہے انہوں نے اب سی اے جی چیف ونود رائے کے خلاف ایک نیا مورچہ بھی کھولنے کی کوشش کی ہے۔ دگوجے نے رائے پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سیاسی خواہشات پال رہے ہیں۔ انہوں نے رائے کا موازنہ سرکاری افسرشاہ پی این چترویدی سے کیا ہے جو کے بعد میں بھاجپا میں شامل ہوگئے تھے۔ کانگریس سکریٹری جنرل نے کہا ان کی خواہش چترویدی کی طرح ہے۔ وہ ریٹائر ہونے کے بعدبھاجپا میں شامل ہوگئے تھے۔ سنگھ نے کہا کے سی اے جی چیف ونود رائے کی رپورٹ میں کوئلہ بلاک الاٹمنٹ میں سرکار کو دکھائے گئے نقصان کی بات محض خیالی ہے۔ ان اعدادو شمار میں بہت تضاد ہے اور سیاسی مقصد کے حصول کے لئے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ دگوجے سنگھ کی طرف سے ایک آئینی ادارے پر کیا جانے والا یہ زبردست حملہ ہے۔ اس سے اگر کچھ صاف ہورہا ہے تو یہی کہ حکمراں فریق کو آئینی اداروں کے وقار کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کانگریس اور اس کی لیڈر شپ والی سرکار کے نمائندوں کی جانب سے سی اے جی پر کئے جارہے حملہ اس لئے مصیبت والے ہیں کیونکہ اس سے جمہوریت کو کمزور کرنے والی ایک نئی روایت قائم ہوتی نظر آرہی ہے۔ کانگریس کی یہ عادت سی بن گئی ہے کہ جو رپورٹ اسے پسند نہ آئے وہ اس رپورٹ کو تیار کرنے والے ادارے پر ہی حملہ بول دیتی ہے۔ کانگریس کا ریکارڈ ہے جب جب وہ اقتدار میں آئی ہے آئینی اور جمہوریت اداروں کو پہلے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہا اور جب ایسا نہیں ہوسکا تو ان پر سیدھے حملے کر ان کی ساکھ کو گھٹانے کی کوشش کی ہے۔یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ٹوجی اسپیکٹرم الاٹمنٹ معاملے میں سی اے جی رپورٹ پربحث کرنے والی پی اے سی کمیٹی میں جس طرح حکمراں فریق کے لوگوں نے تختہ پلٹ کردیاتھا یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ٹو جی معاملے کی جانچ کررہی جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی نے اپنے مقاصد سے سوچی سمجھی حکمت عملی سے بھٹکتی نظر آرہی ہے۔ کسی آئینی ادارے کے نتائج سے اتفاق نہ کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس پر یوں کیچڑ اچھالنا نہ تو ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ہماری جمہوریت کے لئے اچھی روایت ہے۔ کوئلہ کھدائی الاٹمنٹ کے معاملے میں سی اے جی کے نتیجے کو آخری سچائی نہیں مانا جاسکتا اس پر اس کی رپورٹ سے دیگر لوگ بھی غیر متفق ہیں لیکن حکمراں فریق کی نا اتفاقی کا طریقہ بیحد اعتراض آمیز ہے۔ کانگریس خود بھی بے داغ نہیں ہے چناؤ کمشنر ایم ایس گل کو کس نے راجیہ سبھا کا ٹکٹ دیا اور وزیر بنایا؟ جسٹس رنگاناتھ مشرا دوسری مثال ہیں۔ ا س مسئلے کوتبھی ختم کیا جاسکتا تھا جو آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگ ریٹائر ہونے کے بعد ایک طے میعاد تک نہ توکوئی سیاسی پارٹی میں شامل ہوں اور نہ ہی کسی منافع والے سرکاری عہدے کو قبول کریں۔ ایسا قانون بنا دو کے مسئلہ ختم ہوجائے لیکن اس طرح کے حملے ٹھیک نہیں ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!