آتنکیوں کا فنڈنگ بینک

آتنک وادی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے اقتصادی فنڈنگ ضروری ہوتی ہے۔ پیسے سے ہی سارا کام چلتا ہے۔ دہشت گرد تنظیم اپنی یونیٹوں تک پیسہ پہنچانے کے لئے مختلف طریقے اپناتی ہیں۔ ان میں حوالہ اور بینک سب سے زیادہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ عام طور پر بینک اپنے کھاتے داروں پر گہری نگاہ رکھتے ہیں لیکن کچھ بینک ہیں جو اپنے ذاتی فائدے کے لئے مبہم کھاتوں کی سرگرمیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں کالی کمائی یا مبہم پیسے کے لین دین کوروکنے کے لئے اب بین الاقوامی سطح پر کوششیں ہورہی ہیں۔ سرکاروں کو سمجھ میں آرہا ہے کہ کالی کمائی کا لین دین صرف کاروبار کے لئے نہیں ہورہا ہے بلکہ اس کا تعلق دہشت گردی اور بین الاقوامی جرائم سے بھی ہے۔ امریکہ نے پایا ہے کہ ہانگ کانگ بینک (ایم ایس بی سی) کے ذریعے بھارت سمیت دنیا بھر کے ملکوں تک دہشت گردوں اور منشیات مافیا تک پیسہ پہنچ رہا ہے۔ ایوان بالا سینیٹ کے سب کمیٹی کے چیئرمین سینیٹرکارلیون نے 340 صفحات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایم ایس بی سی نے اپنے امریکی بینک کے ذریعے خود سے وابستہ دوسرے ملکوں کے بینکوں کے گراہکوں کو ڈالر امریکہ بھیجنے میں مدد دی۔ بینک نے سعودی عرب کے اررجائی بینک کے ساتھ بھی کاروبار کیا ہے۔ اس بینک کے چیف بانی کو پہلے القاعدہ کی سرپرستی حاصل تھی ۔ اس نے سعودی عرب اور بنگلہ دیش کے ان بینکوں کو ڈالراور بینکنگ سروس فراہم کی جو دہشت گردوں کو پیسہ دستیاب کرانے سے جڑے رہے ہیں۔ بینک پر سب سے پہلے شبہ اس وقت ہوا جب2007-08 کے دوران میکسیکو سے وابستہ ایم ایس بی سی سے ایم ایس بی سی امریکہ کو سات ارب ڈالر بھیجے تھے اور دوسرے میکسیکن بینکوں سے یہ رقم دوگنی سے بھی زیادہ تھی اس میں بڑا حصہ ڈرگ اسمگلنگ کا تھا۔ جانچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایم ایس بی سی لندن میں واقع ہیڈ کوارٹر کے ذریعے میکسیکو، سعودی عرب اور بنگلہ دیش سے اربوں ڈالر کا مبہم کاروبار امریکہ میں آیا۔جنوری 2009 میں ایم ایس بی سی نے اپنی ہانگ کانگ شاخ کو ڈالر کے علاوہ روپیہ ،تھائی اور غیر ملکی کرنسی اررجائی کو سپلائی کرنے کا اختیار دیا۔ 2010ء میں ایم ایس بی سی نے پیسہ ٹرانسفر کرنے کے لئے نئی اسکیم ایم ایس بی ایل فاسٹ کیش لانچ کی۔ اس اسکیم کے تحت سعودی عرب کی راجدھانی ریاض سے پاکستان کے سب سے بڑے بینک حبیب بینک کی کسی بھی شاخ میں پیسہ فوراً ٹرانسفر کیا جاسکتا تھا۔اسکیم کے تحت پیسہ پانے یا بھیجنے والے کا کسی بھی بینک میں کھاتہ ہونا ضروری نہیں تھی۔ امریکی حکومت کافی عرصے سے یہ کوشش کررہی ہے آتنک وادیوں کو ملنے والے پیسے کے ذرائع بند کردئے جائیں۔ ان ذرائع میں حوالہ کاروبار جیسے غیر قانونی دھندے ہیں ساتھ ہی کچھ بینک اور کچھ دیش بھی قصوروار ہیں جہاں اقتصادی قواعد ڈھیلے ہیں۔ کیش چوروں کے لئے جن ملکوں کو سورگ مانا جاتا ہے ان دیشوں میں جو کاروبار ہوتا ہے اس میں صرف ٹیکس بچانے والے صنعت کار ہتھیار ،سوداگر اور کاروباری نہیں ہوتے۔ آتنک وادی اور منظم جرائم پیشہ بھی ہوتے ہیں۔ یہ مانا جاتا ہے کہ داؤد ابراہیم جیسے مافیا کا پیسہ ان ہی راستوں سے بھارت میں آتا ہے اور غیر قانونی دھندوں میں ان کی سرمایہ کاری ہو کر وہ جائز کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایم ایس بی سی جیسے بینکوں کے افسر بھی زیادہ منافع کے لالچ میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے ذریعے بینک کے غلط استعمال کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ اگر بھارت کو بھی دہشت گردی یا منظم جرائم سے موثر ڈھنگ سے نمٹنا ہے تو ضروری ہے کے ایسے قدم بلا تاخیر اٹھائے جائیں جس سے مشتبہ اور غیر قانونی کاروبار پر لگام لگ سکے۔ امریکی حکومت اگر دھمکاتی ہے تو ہم ایم ایس بی سی جیسی تنظیم کے سامنے چپ چاپ سرنڈر کردیتے ہیں اور معافی مانگنے، سزا بھگتنے اور ضروری احتیاطی قدم اٹھانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ وہیں بھارت سرکار کسی غلط کاروبار پر نکیل کسنے کو سوچتی ہے تو اسے یہ ڈر دکھا دیا جاتا ہے کہ اس میں غیر ملکی سرمایہ کاری گھٹ جائے گی۔ بین الاقوامی برادری میں بدنامی ہوگی لیکن ایسے قدم اٹھانے کیلئے بھارت سرکار کو قوت ارادی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جو اب تک نظر نہیں آتا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!