ہم غریب دیش ہیں پھر بھی سونے کا اتنا لالچ

سونے سے ہندوستانیوں کا لگاؤ سماجی اور تہذیبی روایت کا حصہ ہے۔ جب دیش کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا تب اس قیمتی دھات کے تئیں دیوانگی سمجھی جاسکتی تھی مگر اب بھارت غریب ملکوں میں شمار ہے ایسے میں گھر پر زیادہ خرچ کرنا شاید ممکن نہ ہو وہ بھی جب اس کی دیش میں کمی ہے اور ہر سال اربوں ڈالر کی غیرملکی کرنسی اس کے منگانے پر خرچ کرنی پڑتی ہے۔ اس سے چالو کھاتے میں مسلسل خسارہ بڑھتا جارہا ہے جس کا سیدھا اثر بھارت کی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ صرف ذہنی تشفی کے لئے کئے جانے والے اس خرچ پر لگام لگانے کے لئے ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے۔ بھارتیہ ریزرو بینک (آر بی آئی)کے ڈپٹی گورنر کے سی چکرورتی نے یہ صلاح دی ہے۔ان کے مطابق جب دیش امیر تھا تب سونے کے زیور پہننا تہذیبی روایت اور خوشحالی کی علامت مانا جاتا تھا۔ اس وقت دنیا کی جی ڈی پی میں بھارت کا حصہ 30 فیصد ہوا کرتا تھا مگر اب بھارت غریب ہوگیا ہے۔ ہم غریب ہوگئے ہیں اس لئے ہمیں ذہنیت اور معاشرے کو بدلنا چاہئے۔ اس قیمتی سونے کی دھات کے تئیں اپنی ذہنیت کو بدلنے کے لئے سماجی اور تہذیبی انقلاب کی ضرورت ہے۔ دیش میں سونے کی کل مانگ میں سے90 فیصد زیورات اور بھگوان کو چڑھاوے کی شکل میں استعمال ہوتا ہے۔ مندروں میں دئے جانے والے عطیہ دھارمک جذبات سے جڑے ہیں اور عقیدے کاحصہ ہیں مگر اس کے لئے 22 کیریٹ کا سونا ہی کیوں استعمال کیا جائے؟ اس کے لئے2 کیریٹ کا سونا بھی تو استعمال ہوسکتا ہے۔ زیور آخر زیور ہیں بھلے ہی وہ22 کیریٹ سے بنے ہوں یا 2 کیریٹ سے۔ صحیح معنی میں دیکھا جائے تو موجودہ وقت میں اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ سٹے بازی کے چلتے ہی اسکے دام آسام چھورہے ہیں۔اسی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے مگر اس سرمایہ کاری سے کچھ واویلے بھی کھڑے ہورہے ہیں۔ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب لوگوں کی بھیڑیا چال تھمے گی اور اس کی قیمت چرمراکر نیچے آجائے گی ۔ تب سرمایہ کار کہیں کے نہیں رہیں گے۔ سب سے زیادہ تشویشناک یہ بات ہے کہ اس سونے جیسی پیلی دھات میں امیروں سے زیادہ غریب پیسہ لگا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے آر بی آئی نے سونے کے بدلے قرض اور بینکوں کے ذریعے سونے کے سکوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ غریب سونا خریدتے ہیں مگر ضرورت پڑنے پر انہیں اسے 30فیصد تک کم قیمت پر گروی رکھنا پڑتا ہے۔ عام لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سونے کے زیورات خاندان کے لئے برے وقت میں ایک سکیورٹی کی بات ہے۔ زیور گروی رکھ کر یا بیچ کا گھریلو تنگی سے بچا جاسکتا ہے۔ اس دلیل کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتالیکن عورتوں میں سونے کے زیورات کی چاہت ہمیشہ رہتی ہے یہ ان کا ایک شوق بھی ہے اور ضرورت بھی۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سونے کی چاہت کو کم کیا جائے اور اس میٹل کی آسام چھوتی قیمت پر بھی قابو کیا جاناچاہئے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!