پاک کے بعد ترکی بنا بھارت مخالف مرکز !

اقوام متحد ہ کی75وین سال گرہ پر ترکی کے صدر اردگان نے پھر کشمیر کا ایشو اٹھایا ترکی کے اس بیان پر بھارت نے سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے اندرونی معاملوں میں بیرونی ملک کی مداخلت بلکل منظور نہیں ہے اقوام متحدہ میں ہندوستانی مستقل نمائندے ایم چتر مورتی نے ٹیوٹر پر کہا بیرونی ملکوں کو دیگر ملکوں کی سرداری کا احترام کرنا چاہئے اور اس کی پالیسوں پر گہری چھا پ دکھا ئی دینی چاہئے انہوں نے لکھا کشمیر پر ہم نے اردگان کی رائے زنی دیکھی ہے ۔یہ نا قابل قبول ہے اور ترکی کو دوسری ممالک کی سرداری کا خیال رکھنا چاہئے در اصل ترکی کے صدر نے اپنے بیان میں کہا تھا کشمیر تنازع جو جنوبی ایشیا کی مضبوطی اور امن کے لئے بہت اہم ہے اور ابھی بھی ایک برننگ ایشو ہے ۔ بات چیت کے ذریعے سے کشمیر مسئلے کو حل کرنا چاہئے ۔ اس درمیان پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اردگا ن کی تعریف کرتے ہوئے ٹیوٹ میں کہا ہم اقوام متحدہ میں کشمیری لوگوں کے حقوق کی حمایت میں ایک بار پھر اپنی آواز اٹھانے کے لئے اردگان کی ستائش کرتے ہیں اور کشمیری لوگوں کی جائز تحریک کو ترکی کی حمایت سے حوصلہ ملا ہے وہیں ایک دن پہلے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنی تقریر میں کشمیر مسئلہ اٹھایا تھا ۔ اسی سال فرور ی مہینے میں ترکی کے صدر پاکستان آئے تھے تب انہوں نے پاکستانی سی نیٹ میں کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ جتنا پاکستانیوں کے لئے اہم ہے اتنا ہی ترکی کے لوگوں کے لئے بھی اب پاکستان کے بعد بھارت مخالف سرگرمیوں کا دوسرا سب سے بڑا مرکز بن کر ابھرا ہے ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق کیرل اور کشمیر سمیت دیش کے تمام حصوں میں کٹر اسلامی تنظیموں کو ترکی سے پیسہ مل رہا ہے ۔ ترکی بھارت میں مسلمانوں میں کٹرتا کا زہر پھیلانے میں اور انتہا پسندوں کی بھرتیوں کی کوشش کر رہا ہے ۔ اور اس کی یہ کوشش ساو¿تھ ایشیا کے مسلمانوں پر اپنا اثر بڑھانے کی کوشش ہے مشرک وسطیٰ کے ملکوں میں سعودی عرب کی لیڈر شپ کو ترکی چنوتی دینے میں لگاہے اور مسلمانوں میں مقبولیت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے شاید اردگان ترکی کی پرانی مختار ایمپائر کی طرح ترکی کو بڑھانے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟