لکشمی ولاس ہوٹل کی فروخت اور ارون شوری!

آج کل سابق مرکزی وزیر ارون شوری سرخیوں میں ہیں ۔بتاتے چلیں کہ معاملہ کیا ہے ؟ جودھپور کی اسپیشل سی بی آئی عدالت نے بدھ کے روز سابق مرکزی وزیر اور ارون شوری اور دیگر چار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیاہے یہ معاملہ ادے پور میں بنے لکشمی ولاس پیلیس ہوٹل کے نجی کرن سے وابسطہ ہے ۔بی بی سی نے اس پورے معاملے پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں الزام ہے کہ سال 1999-2002کے درمیان سرمایہ کاری وزیر رہے ارون شوری اور سرمایہ سکریٹری پردیپ بیجل نے اپنے عہدے کا مبینہ طور پر بیجا استعمال کر اس سودے میں سرکاری خزانہ کو نقصان پہوچایا ہے سال 2002میں انڈین ٹوریزم ڈولپمنٹ کارپوریشن آئی پی ڈی سی کے 29ایکڑ علاقہ میں پھیلے اس ہوٹل کو 7.52کروڑ روپئے میں بھارت ہوٹل لمٹڈ کو بیچا تھا آئی ٹی ڈی سیگے سب سے زیادہ نقصان برداشت کرنے والے 20-25ہوٹلوں میں اس کا نام بھی شامل تھا اس سے پہلے سی بی آئی نے معاملے میں یہ کہتے ہوئے اپنی کلوجہ رپورٹ داخل کردی تھی ۔کہ ملزم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے ان کے پاس درکار ثبوت نہیں ہیں ۔ادے پور کی فتح ساگر جھیل کے کنارے واقع ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنا لکشمی ولا س ہوٹل اس تنازعہ کے مرکز میں ہے ۔سی بی آئی کی اس کلوزا رپورٹ کے کورٹ میں یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا پہلی نظر میں لگتا ہے کہ ارون شوری اور پردیپ بیجل کے ذریعے کئے گئے اس سودے میں مرکزی سرکار کو244کروڑ روپئے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔سی بی آئی جج پورن کمارشرما نے اس معاملے کی دوبارہ سے تفتیش کے احکامات دئیے ہیں ۔ابتدائی جانچ میں دھاندلی ہونے کے اشارے ملنے باوجود کلوزا رپورٹ داخل کرنا تشویش کا موضوع ہے ۔عدالت نے حکم دیا ہے کہ فوراً ہوٹل کو ریاستی حکومت کو سونپا جائے اور جب تک معاملے کا نپٹارہ نہیں ہو جاتا یہ ریاستی سرکار کی تحویل مین رہے ۔جج نے کرپشن انسداد قانون اور آئی پی سی کی دفع 120مجرمانہ سازش اور دفع 420(دھوکھا دھڑی ) کے تحت قصورواروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے اس معاملے میں ارون شوری ،پردیپ بیجل اور لازیڈ انڈیا لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائرکٹر اشونی گوہا ،کانتی فرنس اینڈ کمپنی کے کانتی لال کرن وکرن سے اور بھارت ہوٹلس لمیٹڈ کی کئیر پرسن جو تسنا شوری پر الزام لگائے گئے ہیں ۔17اگست 2014کو سی بی آئی نے اس بنیادپر پہلی ایف آئی آر درج کی تھی کہ محکمہ سرمایہ کاری کے کچھ افسر اور ایک پرائیویٹ ہوٹل تاجر نے سازش کر 1999-2002میں لکشمی ولاس پلیس کی پہلے مرمت کی اور پھر سستے دام میں اسے بیچ دیا ۔عدالت نے کہا رپورٹ کے مطابق زمین کی قیمت 151کروڑ روپئے ہے ایسے میں ہوٹل کے سودے میں غلط طریقے سے سرکار کو 143.48کروڑ رپئے کا نقصان ہوا ہے ۔سی بی آئی نے جو چارشیٹ داخل کی تھی اس میں ارون شوری کا نام نہیں تھا انہوں نے انڈین ایکسپریس کو ارون شوری نے بتایاتھا کہ سی بی آئی ا س معاملے کو پہلے ہی بند کرچکی تھی کیوں کہ انہیں کوئی ثبوت نہیں ملے اور میرا ایف آئی آر میں نام بھی نہیں تھا اور مجھے اندازہ نہیں ہے کہ میرا نام اب اس میں کیسے جوڑا گیا ہے ۔ارون شوری نے کہاتھا کہ 2014میں ہوٹل کی قیمت کا حساب کتاب رکھنے والے کو سرکار کے ذریعے اپروو لسٹ سے کیا گیاتھا ۔ان کا کہناتھا کہ اس میں قیمت کو لیکر ہائی کورٹ میں چنوتی دی گئی تھی لیکن عدالت نے الزامات کو بے بنیا د پایاتھا 2014میں اس مسئلے پر ارون شوری نے لکھا ہوٹل کی سرامایہ کاری کے فیصلے کے 12سال بعد ایک گم نام شخص کی زبانی شکایت کی بنیاد پر سی بی آئی نے جانچ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ارون شوری نے بتایا کہ 2002میں ہندوستان زنک لمیٹڈ کا نجی کرن ہوا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیا جہاں عدالت نے معاملے کو خارج کر دیا ۔لیکن لکشمی ولاس ہوٹل کے سلسلے میں بھی وہی پیٹرن تھا ہوٹل 2002میں بیچا گیا جب افسر میرے پاس آئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کس بنیا د پر جانچ شروع کی گئی ہے ؟ انہوں نے بتایا ان کے پاس کچھ تحریر میں نہیں ہے معاملہ زبانی شکایت پر تھا بی بی سی کی رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ 2014میں اکنامک ٹائمس میں اس سودے سے وابسطہ خبر شائع ہوئی تھی اور کیبنیٹ کمیٹی میں ارون شوری بھی شامل تھے ۔جو سرمایہ کاری کے لئے بنی تھی اس وقت وہ قانون منتری تھے اور ان کی وزارت نے 3مرتبہ فائل کلئیر کی تھی ۔سرمایہ کاری پر بنی کمیٹی میں ارون جیٹلی نے اکنامک ٹائمس کوبتایا تھا وزیر کے طور پر میں پوری کاروائی کا گواہ رہاتھا مجھے اس بات پر کوئی شبہہ نہیں کہ سرمایہ کاری کے دوران جو لین دین ہوا وہ پوری طرح سے کھانا پوری کے تحت ہوا اس کے کچھ دن بعد سرمایہ کاری سکریٹری پردیپ بیجل نے ایک اخبار کو بتایا سرمایہ کاری سے وابسطہ ہر فیصلے ارون شوری بطور سرمایہ کاری پر بنی کمیٹی کے چئیرمین کے طور پر سابق وزیرا عظم اٹل بہاری واجپائی سے صلاح لیا کرتے تھے پردیپ بیجل نے ایک کتاب لکھی ”اصلاحات کی مکمل کہانی “دی ٹوجی پاور اینڈ پرائیویٹ انٹر پرائز ۔اس کتاب میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ سی بی آئی چاہتی تھی کہ وہ ارون شوری اوررتن ٹاٹا کے خلاف بیان دیں ۔سال 2004سے 2007کے درمیان یوپی اے حکومت کے دور میں پردیپ بیجل انڈین ٹیلی کام ریگولیٹری (ٹرائی)کے چئیرمین تھے ۔پیشہ سے صحافی اور مصنف ارون شوری کو ایمرجنسی کے دوران انڈین ایکسپریس میں سنسنی خیز آرٹیکل کے لئے جانا جاتا ہے ۔انڈین ایکسپریس نے انہیں ایگزیکیٹو ایڈیٹر کے طور پر کام کرنے کی دعوت دی ۔شوری کو 1982میں ریمن میکسہ سے ایوارڈ اور 1990میں پدم ویبھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا ۔اور اس کے بعد 1998میں بھاجپا میں شامل ہو گئے اور راجیہ سبھا میں نامزد ہوئے اور بھاجپائی حکومت نے وزیر سرامایہ کاری اور ٹیلی کمیٹیشن اور انفورمیشن ٹیکنا لوجی رہے ۔ارون شوری واجپائی کے قریبی ساتھیوں میںگنے جاتے تھے لیکن بی جے پی کی مودی سرکار کے خلاف بولنے کے لئے بھی انہیں جانا جاتا ہے ۔اگست 2014میں ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے اسی سال انہوں نے کہا تھا کہ مودی کام کرنے اور جلد فیصلہ لینے والے نہیں ہیں لیکن جلد ہی ان کا نظریہ بدل گیا ۔اور 2015مئی میں کہا تھا کہ انہیں لگتا ہے مودی شاہ اور ارون جیٹلی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں کو بھی ہٹا دیا ہے رافیل جہاز سودے پر 2018میں انہوں نے نامور وکیل پرشانت بھوشن جشونت سنہا کی خدمات لی تھیں ۔اور ساتھ مل کر سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی اور کورٹ کی نگرانی میں سی بی آئی سے جانچ کرانے کی مانگ کی ۔ایک دور وہ بھی آیا ارون شوری نے کہا 2019میں ایک بار پھر بی جے پی کو چننا دیش کے لئے صحیح نہیں ہوگا یہ مت سوچیے کہ نیتا اقتدار می آتے جاتے رہتے ہیں ۔ان کے کردار کو اس بات پر نا پرکھئیے کہ وہ سچ کا کتنا ساتھ دیتے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟