چین سے کشیدگی کے درمیان بھارت نے وہاں کے بینک سے لیا بھاری قرض!
بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر کشیدگی انتہا پر ہے اسی درمیان بدھ کو پارلیمنٹ میں ایک تحریری بیان کے بعد مرکز کی مودی سرکار پر اپوزیشن حملہ آور ہوگئی ۔کانگریس پارٹی کہہ رہی ہے ایک طرف لداخ میں سرحد پر چین کے ساتھ جھڑپیں ہو رہی ہیں اور ہندوستانی فوجی شہید ہو رہے ہیں تو دوسری طرف مرکز چینی بینک سے سرکار قرض لے رہی تھی دراصل اس کی شروعات وزیر مملکت خزانہ انوراگ ٹھاکر کے ایک تحریری بیان کے بعد ہوئی ۔بی جے پی کے دو ایم پی نے سوال کیا تھا کہ کورونا وائرس وبا کے سبب پیدا حالات سے نمٹنے کے لئے مرکزی حکومت نے فنڈ کا استعمال کیسے کیا اور اسے ریاستوں کو کیسے ہوا اس سوال پر وزیر مملکت خزانہ انوراگ ٹھاکر کی پارلیمنٹ کو دی گئی معلومات سے یہ بات نکل کر آئی مرکزی سرکار نے چین کے ایشین انفراسٹکچر انویسٹ منٹ بینک سے کورونا وبا کی شروعات میں دو بار قرض لیا اور بینگ سے دو قرض کے معاہدے کئے پہلا قرض 8مئی 2020کو پچاس کروڑ ڈالر لیاتھا یہ بھارت کی کووڈ 19-سے نمٹنے کے ہنگامی قدم اور ہیلتھ سسٹم تیار ی پروجیکٹ کو جزوی طور سے مدد کرنے کےلئے لیا گیا ۔مقصد وبا کے سبب خطرے سے نمٹنا اور کسی بھی حالت سے نمٹنے کے لئے ہیلتھ سسٹم کو مضبوط کرنا ہے ٹھاکر نے بتایا کہ بینک سے پچیس کروڑ ڈالر پہلے دے چکا ہے ۔اس کے بعد دوسرا معاہدہ 19جو ن کو کیا گیاجو 75کروڑ ڈالر کا تھا یہ بھارت سرکار کے بجٹ کی مدد کے طور پرتھا تاکہ بھارت کے کووڈ 19-کے سماجی سکیورٹی پروگرام میں تیزی لائی جائے ۔وزیرا عظم غریب کلیان یوجنا کے تحت چلائے گئے کئی قدم آٹھائے گئے ہیں جس کے لئے ریاستوں اور مرکز ی حکمراں ریاستوں تک پہوچایا گیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت سرکار نے 125کروڑ ڈالر کا معاہدہ کیاتھا جو ہندوستانی کرنسی میں00 92 کروڑ سے زیادہ رقم بنتی ہے اس میں سے بھی بھارت کو ابھی تک 100کروڑ ڈالر یعنی 7300کروڑ روپئے مل پائے ہیں ان اعداد شمار کے سامنے آنے کے بعد کانگریس نیتا راہل گاندھی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے پوچھا کہ مودی سرکار ہندوستانی فوج کے ساتھ ہے یا چین کے ساتھ ہے ؟ ایک کانگریس لیڈر نے تو یہاں تک ٹوئٹ کر ڈالا کہ کیا پی ایم مودی پیسوں کے بدلے ہماری زمین بیچ رہے ہیں؟ سو ارب ڈالر کے اے آئی آئی بی نے جنوری 2016سے کام کرنا شروع کیا تھا اس کا ہیڈ کوارٹر راجدھانی بیجنگ میں ہے ۔ چین کے صدر شی جنپنگ نے 2001میں ایشیائی پیشفک اکنامک کارپوریشن میں بینک قائم کرنے کی تجویز رکھی تھی جس کے بعد 57ملکوں نے ساتھ مل کر اس کو قائم کیا تھا اس بینک میں سب سے زیادہ چین کی 26.59فیصدی حصہ داری ہے اس کے بعد بھارت کا نمبر ہے جس کی 7.61فیصدی حصہ داری ہے بھارت کے ماہر اقتصادیات کہتے ہیں کہ اس بینک کی پہل بھی چین نے کی تھی اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس پر چین کا دبدبہ رہے گا اور وہی جو چاہے گا وہاں وہ سرمایہ کاری ہوگی ۔چاہے گا کہ کہاں کہاں پر سرمایہ کاری ہو اور کہاں نا ہو ۔بھارت کے پاس 500عرب ڈالر کا غیرملکی ذخیرہ ہے ۔تو ہمیں اس چینی بینک سے قرض لینے کی ضرورت آخر کیوں پڑی ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں