داشومسٹ گو آن!


کورونا نے اداکاروں کی زندگی کو اسٹیج سے اتار کر آن لائن کام کرنے کے موقع تلاش نے کو مجبور کردیا ہے۔ تین مہینے سے دہلی بند ہے۔ کسی آڈیٹوریم، آرٹ گیلری، نکڑ میں کسی بھی آرٹ اینڈ کلچرل ایکٹنگ کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ مگر داشومسٹ گو آن کو جینے والے اداکاروں نے کوشش کرنے کی ہمت کی۔ ناظرین کو فن سے جوڑنے کے لئے آن لائن فیسٹیول کررہے ہیں تو کوئی اسٹوری ٹیلنگ، پینٹنگ، موسیقی کے اپنے ہنر کو ورچول پلیٹ فارم پر اتار رہا ہے تاکہ وبا کے دوران کشیدگی محسوس نہ کریں۔ دومہینے کے لاک ڈاو¿ن کے دوران دہلی کے اسمتا تھیٹرکے اداکاروں نے اپنے ناظرین کو باندھے رکھا ہے۔ کووڈ۔ 19 کے انفیکشن دور میں بالی ووڈ شوٹنگ کے طور طریقے بدلنے کی تیاری بھی ہورہی ہے۔ تاکہ شوٹنگ کی اجازت ملتے ہی محفوظ طریقے سے کام شروع ہوسکے۔ ساو¿تھ انڈیا کی ایک بڑی سنیما چین کے ایم ڈی روبن مارک وانن بتاتے ہیں کہ دیش بھر کے سنیما ہال والوں نے طے کیا ہے کہ سوشل دسٹینسنگ کی تیاری کی جائے۔ اس میں ٹکٹ کی بکری پوری طرح سے آن لائن یا بارکوڈ سے ہوگی۔ ہال میں ایک دوسیٹ چھوڑ کر بٹھایا جائے گا۔ شو کے بعد سنیما ہال سینیٹائز کئے جائیں گے۔ فلم بزنس تجزیہ نگار کومل ناہاٹا کہتے ہیں سنیما ہال کھول بھی دیئے جائیں گے تو شروع میں 30فیصد ہی لوگ آئیں گے اور درمیانے چھوٹے بجٹ کی فلمیں تو سنیما ہال میں ریلیز ہوں گی لیکن 30فیصدی ناظرین کے لئے بڑے بجٹ کی فلمیں سنیما ہال میں ریلیز ہوں گی یا نہیں اس میں شک وشبہ ہے۔ لیکن منافع شیئر سے شاید اسٹار کو اتنا فائدہ نہ ہو، سنے اینڈ ٹی وی آرٹسٹ ایسوسی ایشن (سنٹا) بڑے پیمانے پر کام کررہی ہے کہ کیسے قواعد کے ساتھ شوٹنگ شروع کی جاسکے اور سرکار کو اس بار راضی کیاجائے۔ سنٹا ایکزیکٹیو کمیٹی کے ممبر ششانت سنگھ کہتے ہیں کہ ہم طے کیا ہے کہ سیٹ پر 10سے 20لوگ ہی رہیں گے۔ اداکار میک اپ اور ہیئر اسٹار گھر سے کرکے آئیں گے سیٹ پر ان کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایک پروڈیوسر بتاتے ہیں کہ میک اپ مین کی فیس میں بھاری کٹوتی ہوسکتی ہے۔ ابھی صرف ہیئر اسٹائلسٹ سیٹ پر آنے کے لئے 40ہزار سے ایک لاکھ روپے تک لیتے ہیں۔ انڈین موشن پکچرپرودیوسرس ایسوسی ایشن کے صدر پی پی اگروال بتاتے ہیں کہ ہم جب یوروپ یا امریکہ شوٹنگ کے لئے جاتے ہیں تب ساتھ 30فیصدی عملہ لے جاتے ہیں اب یہ قاعدہ بھارت میں بھی لاگو ہوگا۔ تھیٹر میں سیٹ پر ہی کھانے کا آرڈرلینا ضروری ہوگا۔ اوٹی ٹی سنسر کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے۔ تھیٹر اور سنیما بھارت میں منورنجن کے سب سے بڑے ذریعے ہیں، امید کی جاتی ہے کہ جب جلد انہیں بھی کھولا جائے گا۔ کیونکہ داشومسٹ گو آن۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!