کچرے میں پڑی کورونامریضوں کی لاشیں

کورونا بھارت میں خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ لیکن کیاوجہ ہے کہ دیش کی سب سے بڑی عدالت کو خود نوٹس لیتے ہوئے سرکاروں کو جھاڑ پلانی پڑی؟ شرمناک تو یہ ہے کہ جن کے ووٹوں سے سرکار کا وجود ان کی لاشیں کوڑے میں ملیں اور مریضوں کے بیچ پڑی ہیں؟ پچھلے 15 روز سے سپریم کورٹ ہی شہریوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے سرکاروں ہدایت دے رہی ہے اور پھٹکار لگانے پر مجبور ہورہی ہے۔ دہلی کے سول ہسپتالوں میں مریض بھٹک رہے ہیں کہیں بھرتی نہیں ہورہی ہے، حال ہی میں پرواسی مزدوروں کی حالت پر مرکز اور ریاستی سرکاروں کی جو لاپروائی دیکھی اسی عدالت نے حکم پاس کیا تھا۔ تازہ کیس جمعہ سپریم کورٹ نے ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج اور ان کے ساتھ لاشوں کو رکھے جانے کے واقعات پر خود نوٹس لیا۔ اور کہاکہ لاشوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیاجارہا ہے۔ یہ کافی افسوس کی بات ہے کہ عدالت نے دہلی سرکار سے کہا کہ ہسپتالوں میں ہر جگہ لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور لوگوں کا اسی جگہ پر علاج چل رہا ہے۔ عدالت نے کہاکہ دہلی میں روزانہ جانچ سات ہزار سے گھٹ کر پانچ ہزار پہنچ گئی ہے۔ ممبئی، چننئی جیسے شہروں میں روزانہ سات ہزار لوگوں کی جانچ ہورہی ہے۔ ریاستی حکومت کی یہ ڈیوٹی نہیں ہے کہ جانچ میں اضافہ ہو؟ جسٹس اشوک بھوشن اور سنجے کشن کول اور جسٹس ایم آرشاہ کی بینچ نے میڈیا رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ دہلی ہسپتالوں کی حالت بے حد خراب اور قابل رحم ہے۔ انہوں نے ایل این جے پی ہسپتال کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ وہاں مریض چلا رہے ہیں، لیکن ان کی آواز کوئی سننے والا نہیں ہے۔ یہ دہلی کے سرکار ہسپتالوں کی حالت ہے جس نے 2000بیڈ کی سہولت ہے لیکن 11جون تک 889 بیڈ ہی مریضوں کو دیئے گئے۔ سرکاری ہسپتالوں میں 5814بیڈ ہیں، جس میں 2620ہی بھرے ہوئے ہیں۔ عدالت نے ایل این جے پی کے ڈائریکٹر سے 17جون تک جواب مانگا ہے۔ سماعت کے دوران سرکار کے وکیل مہتا نے کہاکہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ لاشوں کو کورونا کا علاج کرارہے مریضوں کے پاس ہی رکھا گیا ہے۔ ایسے بھی معاملے سامنے آئے ہیں کہ لاشوں کو رسّی سے گھسیٹ کر الگ لے جایا گیا۔ جسٹس ایم آرشاہ نے سالیسٹر جنرل سے پوچھا کہ پھر آپ نے کیاکیا؟ سپریم کورٹ نے کہاکہ ہسپتالوں میں لاشوں کے رکھ رکھاو¿ٹھیک نہیں ہورہا ہے اور نہ ہی لاشوں کے وارثوں کو جانکاری دی جارہی ہے۔ اس سے رشتہ داروں کو اپنے مرے افراد کے انتم سنسکار میں بھی شامل نہیں ہونے دیا جارہا ہے۔ ریاستی حکومتیں مرنے والوں کی تعداد کم بتارہی ہیں اور صحیح تعداد چھپا رہی ہے۔ سرکاری دباو¿ میں ریکارڈ میں مرنے کی وجہ دل کا دورہ پڑنے، کڈنی کا فیل ہونا دکھایاجارہا ہے کیونکہ وائرس پھیپھڑے پر حملہ کرکے ان میں آکسیجن لیول کم کردیتا ہے لہٰذا یہ اعضاءمتاثر ہوتے ہیں۔ یہ ایک گمنام جرم ہے جو 70سال میں جمہوریت میں سرکاریں کررہی ہیں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!