چین کی دھوکے بازی ایک بار پھر اجاگر ہوئی

لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کے قریب مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں کرنل سمیت 20جوانوں کو چینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہوجانے کا واقعہ نے چین کی دھوکہ بازی کو ایک بار پھر سے اجاگرکردیا ہے۔ 1975میں اروناچل پردیش کے تلنگلا علاقے چینی فوجیوں کے گھات لگاکر کچھ ہندوستانی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے 45سال بعد دونوں ملکوں کے بیچ ایسی جھڑپ ہوئی جس میں فوجیوں کی موت ہوئی اور اس سے بھارت۔ چین کے درمیان کشیدگی انتہا پر پہنچ گئی ہے۔ جب دونوں دیش گلوان وادی میں پیچھے ہٹنے پر متفق تھے تب ایسا کیوں ہوا؟ اس کی ایمانداری سے فوج اور وزارت خارجہ کے حکام کو تجزیہ کرنا چاہئے۔ اعلیٰ سطح پر اگر پہلے پہل ہوتی تو ممکن ہے تنازعہ اس تاریخی ٹکراو¿ کے موڑ نہ پہنچتا۔ چین کی طرف سے پیر کی رات یہ بھڑکانے والے کارروائی اس وقت کی گئی جب دونوں ملکوں کے درمیان بنی اتفاق رائے کی بنیاد ایل اے سی کے پاس فوجیوں کی واپسی ہونی تھی۔ دونوں فریقین میں کرنل میجر لیفٹیننٹ جرنل سطح کی کئی دور کی بات چیت کے بعد فوجیوں کی واپسی پر اتفاق رائے ہوا تھا، لیکن اس تازہ کارروائی میں چین کے قول اور فعل کے فرق کو ایک بار پھر اجاگر کردیا۔ چین کے قول اور فعل میں فرق کی لمبی تاریخ رہی ہے، چاہے وہ سال 1962کی جنگ کا ہو یا پھر اس کے بعد چھ دہائی بعد کا لمبا یہ وقت اس دوران ایل اے سی کو لے کر چین ہمیشہ اپنا رول بدلتا رہا ہے۔ حالیہ ڈوکلام تنازعہ یاد ہوگا؟ چین نے ایک بار پھر جس ہماری پیٹھ پر خنجر گھونپنے کا کام کیا اس کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنے کے علاوہ اور کوئی قدم نہیں کہ وہ ہمارا سب سے بڑا اور ساتھی شاطر دشمن کی شکل میں سمجھ میں آگیا ہے۔ یہ ایک جانے انجانے کی تصویر ہے کہ وہ ہندوستانی علاقے میں قبضہ بھی کرتا ہے اور پھر بھارت کو امن قائم رکھنے کی نصیحت بھی دیتا ہے اور پیچھے ہٹنے سے انکار کرتا ہے۔ گلوان وادی کا یہ واقعہ بتارہا ہے کہ پانی سرکے اوپرچڑھنے لگا ہے دوستی کی آڑ میں دشمنانہ رویے کا ثبوت دینا اور بھارت کو نیچا دکھانا چین کی عادت سی بن گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چینی محکمہ خارجہ نے ہندوستانی فوجیوں پر اس کی سرحد میں نام نہاد شکل میں گھسنے اور پہلے حملہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے خود کو متاثربتانے کی کوشش کی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چینی فوجیوں نے پتھر بازی کر ہندوستانی جوانوں کو نشانہ بنایا۔ چین کو یہ پتاہونا چاہئے کہ وہ داداگیری کے بل پر بھارت سے اپنے رشتے قائم نہیں کرسکتا۔ 1962کو بھارت بھولا نہیں ہے، ہم اس کی اینٹ کا پتھر سے جواب دینے کے اہل ہیں۔ لیکن یہ صرف ضروری ہے کہ خود انحصار بھارت مہم کے تحت چینی مصنوعات درآمدات کو محدود کریں اور یہ بھی ہے کہ بھارت اپنی تبت، تائیوان اور ہانگ کانگ پالیسی پر نئے سرے سے نظرثانی کرے۔ اس واقعہ سے سرحد پر پچھلے 45برسوں سے چلی آرہی جوں کی توں حالت اب بدل چکی ہے ایسے میں دوررس ٹارگیٹ کو ایک طرف رکھنا ہماری مجبوری ہے۔ چین کو صاف اشارہ جلد بھارت کو دینا ہوگا اور چین کو سبق سکھانا ہی ہوگا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!