اقتصادی مند ی پر اب اپنوں کے نشانے مودی سرکار

وزیر اعظم نریندر مودی نے سنیچر کو کہا کہ ان کی حکومت نے اپنے دوسرے عہد کے چھ مہینے پورے کر لئے ہیں اور اس دوران بھارت نے قابل قدر بہتری کے ساتھ رفتار کا گواہ بنے ہیں مودی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ آرٹیکل 370کو ختم کرنے سے لے کر اقتصادی اصلاحات تک اور پارلیمنٹ سے لے کر فیصلہ کن خارجہ پالیسی تک تاریخی قدم اُٹھائے ہیں ۔مودی سرکار کے تمام وزیر بھی 180دن کے کارنامے گنا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دیش نہ بھولنے والی اقتصادی مندی کے دور سے گزر رہا ہے ،اور جی ڈی پی مسلسل گر رہی ہے بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے پیداوار گھٹ رہی ہے ،اور عوام میں ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے ،ہماری بات تو چھوڑئیے اب تو بی جے پی کے اندر بھی ملک کی بد حال ہوتی معیشت پر بھی سوال اُٹھتے جا رہے ہیں اور یہ اقتصادی محاض پر مودی سرکار کی ناکامیوں کا ہی نتیجہ ہے مودی تو مالی سال کی دوسری سہہ ماہی میں دیش کی ترقی شرح پچھلے چھ سالوں کے مقابلے کم درج ہوئی اور یہ 4.5پر آگئی ہے اس مسئلے کو اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے جارہانہ حملوں کے درمیان اب سرکار کے سگے ساتھیوں اور اپنوں کے درمیان بھی بھاری بے چینی اور ناراضگی کا ماحول دکھائی پڑ رہا ہے جہاں ایک طرف تازہ اعداد و شمار کے سامنے آنے کے بعد بھاجپا کی طرف سے سرکار کی کھل کر بچاﺅ کرنے کی روایت کو اپنانے سے پرہیز کر رہی ہے وہیں دوسری طرف جے ڈی یو اکالی دل،جیسے این ڈی اے کی اتحادی پارٹیوں نے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کو لے کر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے ۔اس سے نمٹنے کے لے نصیحتوں کی بڑی پوٹلی کھول دی ہے اکالی دل نے تو سیدھے طور پر سرکار کی ناکامی کا الزام لگا دیا ،دوسری طرف جے ڈی یو نے سرکار کی اقتصادی پالیسیوں کو بے اثر اور دیش کے لئے نقصاندہ قرار دیتے ہوئے ان میں فوری تبدیلی کرنے کی مانگ کر لی ہے یہاں تک کہ راجیہ سبھا ایم پی و اقتصادی معاملوں کے مشہو ر جانکار ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے دیش کے موجودہ اقتصادی پس منظر کو لے کر بھاری ناراضگی ظاہر کی ہے ۔اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وقت رہتے اپنی پالیسیوں میں اصلاح نہیں کی تو مستقل قریب میں ترقی شرح اور تیزی سے گرے گی سوامی نے تو اقتصادی عدد و شمار کو مستر د کر دیا ،اور وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی صلاحیت او ر کام کے طریقے پر بھی سیدھے طور پہ سوال کھڑ کر دئے ۔دوسری طرف جی ڈی پی کے موجودہ اعداد وشمار سے بھلے ہی اور ترقی شرح ساڑھے چار فیصدی بتائی جا رہی ہے لیکن حقیقت میں یہ ڈھیڑھ فیصدی پر آگئی ہے ۔جے ڈی یو نے اس مسئلے پر اقتصادی ماہرین و دیگر وقاف کاروں کی میٹنگ بلانے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں سیاست نہیں کی جانی چاہیے اور مسئلے کا حل تلاشنے کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کے سینر لیڈروں سے بھی صلاح لینے میں کوئی قباہت نہیں برتی جانی چاہیے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟