حیوانیت کی حدیں پا کرتے یہ درندے

سات سال پہلے سولہ دسمبر 2012کو دہلی کے وسنت بہار میں نربھیہ کے ساتھ وہ بے خوف درندی ہوئی تھی جس سے پورا دیش اُٹھ کھڑا ہو تھا اس گھناونے جرائم کے خلاف پورا دیش سڑکوں پر اتر آیا تھا جگہ جگہ کینڈل مارچ ہوئے تھے ،سرکار ،سماج و سبھی سیاسی پارٹیوں نے یہ عہد کیا تھا کہ بس اب اور نہیں یعنی اب کوئی نربھیا دوبارہ نہیں ہوگی ہم نے امید کی تھی کہ شاید اب کچھ بدلے لیکن کچھ بھی نہیں بدلہ بلکہ الٹے ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو گیا آئے دن آبروریزی اور موت کے واقعات کی باڑھ سی آگئی سات سال گزرنے کے بعد بھی نربھیہ کے قاتلوں کو پھانسی پر نہیں لٹکایا جا سکا ہتھیارے کوئی نہ کوئی داﺅں پینچ چل کر بچتے جا رہے ہیں ۔جمعہ کو پٹیالہ ہاﺅس میں اس کیس کی تاریخ تھی اور امید تھی کہ آخر کار ڈیتھ وارنٹ جاری ہو جائے گا جمعہ کو جیل کے افسر نے عدالت کو مطلع کیا کہ ایک قصوروار نے اپنی پھانسی کی سزا کے خلاف صدر جمہوریہ سے رحم کی عرضی دی ہے اس پر پٹیالہ ہاﺅس کے اسپیشل جج جسٹس ستیش اروڑا نے دیگر قصورواروں سے پوچھا کہ وہ اپنے بچاﺅ کو لے کر کونسی کارروائی کو اپنائیں گے جج نے اگلی تاریخ 13دسمبر طے کی ہے ۔امید ہے کہ تب تک صدر جمہوریہ اپیل کو خارج کردیں گے اور چاروں قصورواروں کی پھانسی کا راستہ کھل جاے گا پچھلے چار دنوں کے اندر رانچی اور حیدرآباد میں ہوئے گھناونے اجتماعی آبروریزی بتاتے ہیں کہ حالات وہیں کے وہیں ہیں اور دیش میں لڑکیاں ابھی بھی محفوظ نہیں ہیں۔یہ واقعات کسی دور دراز کے علاقہ کی نہیں ہیں یہ دو بڑے ریاستوں کی راجدھانی کی ہیں رانچی میں ایک طالبہ کا اغوا کر کے لے گئے اور اس کے ساتھ اجتماعی آبروریزی ہوئی جبکہ حیدرآباد ویٹنری ڈاکٹر کی اسکوٹی کا ٹائیر پنکچر جان بوجھ کر اس لئے کیا تاکہ اس کا گینگ ریپ کیا جا سکے گینگ ریپ کرنے کے بعد اس کا گلا دبا کر مار ڈالا گیا اور جلا دیا گیا ایسے درندوں کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے او ر نہ ہی ذات اسے فرقہ وارانہ رنگ دینا اتنا ہی بڑا جرم ہے ۔دونوں ہی واقعات سیدھے طور پر بتاتے ہیں کہ نربھیاکانڈ کے بعد جوبھی قدم اُٹھائے گئے وہ ایسے واقعات کو روکنے کے لئے ناکافی ثابت ہوئے ہیں سوال یہ ہے کہ عورتوں کی حفاظت پر سرکار کب تک چپ رہے گی ؟کب تک حفاظت کے لئے اُٹھی تحریک کی چینخوں کو دکھاوٹی آنسوﺅں سے دبانے کی کوشش ہوگی ۔کب تک سڑکوں پر اکیلے نکلنے میں عورتیں ڈرتی رہیں گی اور کب تک جرائم پیشہ کھلے گھومتے رہیں گے؟اس میں پبلک کا بھی قصور کم نہیں ہے حید رآباد دیش کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے جہاں حادثہ ہوا وہ ائر پورٹ کا علاقہ ہے ۔کیا پولس اور سیکورٹی جیسی کوئی انتظام نہیں تھا ؟اگر مان بھی لیں کہ جو جرائم پیشہ جن کی عقل اور انسانیت ماری گئی تھی تو بھی انہیں روکنے کے لے وہاں ایک بھی انسان نہیں تھا کیا؟سماج مانتا ہے کہ جرائم پیشہ کے بچ نکلنے کے راستے بند کرنا اور سخت سزا دینا ضروری ہے اور یہ صحیح طریقے سے ابھی تک نہیں کیا گیا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!