ڈاکٹروں پر بڑھتے حملوں کو کیسے روکا جائے؟
اگر کوئی علاج یا کسی دوسرے معاملے نے اسپتال میں توڑ پھوڑ کرتا ہے تو اسے بڑی سخت سزا مل سکتی ہے ۔جس میں دس سال جیل سے لے کر دس لاکھ روپئے تک کا معاوضہ دینا پڑ سکتا ہے اس شخص کے گھر یا اثاثے کی قرقی ہو سکتی ہے مرکزی حکومت نے میڈیکل ملازمین ،ڈاکٹروں کی حفاظت سے متعلق ایک بل کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے اسے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں پیش کیا جائے گا حکومت نے اس بل پر عام لوگوں سے بھی رائے دینے کو کہا ہے اگلے تیس دنوں تک لوگ اس پر اپنی بات رکھ سکتے ہیں بتا دیں کہ حالیہ دنوں میں ڈاکٹروں پر مسلسل حملوں کے واقعات سامنے آئے ہیں ۔جس کے احتجاج میں ڈاکٹروں نے ہڑتال بھی کی تھی۔پچھلے دنوں مغربی بنگال میں ایک اسپتال میں مار پیٹ کو لے کر پورے دیش کے ڈاکٹروں نے ہڑتال کر دی تھی ۔اس کے بعد حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈاکٹروں کی حفاظت سے متعلق جلد قانون لایا جاے گا اُدھر سپریم کورٹ نے پچھلے جمعہ کو مرکزی حکومت نے اس عرضی کا جواب مانگا جس میں ڈاکڑوں اور کلینکل اداروں پر حملوں میں شامل لوگوں کے خلاف فوری اور ضروری کارروائی کئے جانے کی ہدایت دئے جانے کی درخواست کی گئی ہے ۔جسٹس این وی رمنہ اور جسٹس اجے رستوگی کی بنچ کے سامنے کارروائی کےلئے اس عرضی میں ڈاکٹروں اور کلینکل ادارہ (اسپتا لوں)پر دنگہ کرنے اور توڑ پھوڑ کو الگ سے جرم قرار دینے کے لئے ایک قانون لانے کے لئے حکومت کو ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے ۔بنچ نے مرکز اور وزارت صحت و بہبود کو نوٹس جاری کئے ۔اور ان سے عرضی پر اپنے جواب داخل کرنے کو کہا ایسوشی ایشن آف ہیلتھ کئیر فار ورلڈ (انڈیا)تامل ناڈوکے ایک ڈاکٹر اور دوسرے ڈاکٹر بھی کنچن کے ذریعہ دائر عرضی میں ہندوستانی میڈیکل فیڈریشن کے ذریعہ کی جارہی ایک اسٹڈی کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔جس میں بتایا گیا کہ دیش بھر کے 75فیصد سے زیادہ ڈاکٹروں نے کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا سامنا کیا ۔عرضی میں بتایا گیا کہ دیش بھر میں ڈاکٹروں پر تشدد کے متعدد واقعات سامنے آرہے ہیں ۔یہاں تک کہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ (ایمس)نئی دہلی بھی اس سے نہیں بچا ہے ۔اس میں کہا گیا ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ڈاکٹر اور مریض کا تناسب ایک ہزار گنا ہونا چاہیے جس کا مطلب ہے کہ بھارت کے اس فرق کو بھرنے کے لئے پانچ لاکھ ڈاکڑوں کی ضرورت ہے ہمارا بھی خیال ہے ڈاکٹروں کو پوری حفاظت ملنی چاہیے ان مار پیٹ کرنے والے شر پسندوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں