جرمانہ اور سڑکوں پر ڈسپیلن
ترمیم شدہ موٹر ویکل قانون ایک ستمبر سے پورے دیش میں نافذ ہو چکا ہے ۔جب سے یہ قانون لاگو ہوا ہے دیش میں ایک عجیب طرح کا افرا تفری کا ماحول بن گیا ہے کسی کا 94ہزار روپئے تک کا جرمانہ کسی پر 23ہزار روپیہ جرمانہ اس سے پریشان ایک موٹر سائکل سوار نے 10ہزار روپئے کے جرمانے پر اپنی بائک کو ہی جلا ڈالا جگہ جگہ پر لوگوں کی پولس ملازمین سے جھڑپیں اور گاڑی کو جلانے کی خبریں آئی ہیں ۔دراصل نئے قواعد کے تحت ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی پر جرمانہ اور سزا پہلے سے کافی زیادہ بڑھ گئی ہے ۔اس لئے جن ڈرائیوروں کے پاس جائز کاغذات نہیں ہیں یا وہ شراب پی کر گاڑی چلا رہے تھے لال بتی پار کر رہے تھے ۔وغیرہ سب کو ملا کر جرمانے کی رقم ہزار وں میں بڑھ گئی ہے ۔جس وجہ سے عام آدمی میں ناراضگی ہے ۔اپوزیشن کے کچھ لیڈر تو اسے رقم اکھٹا کرنے کا ایک نیا ہتھ کنڈہ قرار دے رہے ہیں ۔اس قانون کے لاگو ہونے سے پہلے اور اس کے عمل درآمد کو لے کر اندیشات تھے کے اس کو لاگو کرنے کے لئے کافی تعداد میں ملازمین کی ضرورت ہوتی چونکہ اسے ریاستوں کے ذریعہ لاگو کیا جانا تھا ۔اس لئے چنوتی اور بڑی لگ رہی تھی مگر مرکز اور ریاستوں میں الگ الگ پارٹیوں کی حکومتیں ہوں تو ایسا سوچا جا سکتا ہے یہ سچ ہے کہ غیر بھاجپا حکمراں ریاستوں پنجاب،مدھیہ پردیش،مغربی بنگال،اور راجستھان نے اسے نافذ نہیں کیا ہے ۔دوسری طرف گجرات میں اسے نافذ کرنے میں ٹال مٹولی دیکھی گئی ہے ۔مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کو صفائی دینی پڑی ہے کہ جرمانے کا مقصد لوگوں کو قانون توڑنے سے روکنا ہے نہ کہ پیسہ اکٹا کرنا سڑک حادثہ دیش کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ان پر قابو پانا ایک بڑی چنوتی ہے ۔ایسے میں بھاری جرمانوں کے ڈر سے لوگ ٹریفک قانون توڑنے سے بچیں گے ۔انہیں محفوظ طریقہ سے گاڑی چلانے کی عادت ہوگی بتا دیں کہ دیش میں ہر سال قریب 56لاکھ اموات سڑک حادثوں میں ہوتی ہے ۔اگر قانون لوگوں کی جان بچانے میں معاون ہے تو اس کی مخالفت نہیں کی جانی چاہیے بے شک احتجاج کرنے والے یہ شکایت کر سکتے ہیں کہ خراب سڑک اور گڈھوں کو نہ بھرنے والوں پر کارروائی ہونی چاہیے کئی چوراہوں پر سگنل لائٹ نہیں جلتی ۔فی الحال تو یہ جرمانے کی رقم چلتی رہنی چاہیے ۔اور کچھ وقت کے بعد جب ٹریفک کنٹرول میں آجائے اور گاڑی چلانے والے سدھر جائیں تو بے شک جرمانے کی رقم کمی کی جا سکتی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں