جج صاحب ہی نہیں مان رہے عدالت کا حکم
ہندی اخبار امر اجالا میں دھیرج بینی وال کی ایک سنسنی خیز خبر شائع ہوئی ہے پیش ہے یہ رپورٹ اگر آپ اپنی عدالت کے حکم کو نہیں مانے تو اسے جیل بھیجا جا سکتا ہے لیکن جب ایک جج خود عدالت کا حکم نہ مانے تو اسے کیا کہیں گے؟اتر پردیش میں تعینات ایک جج صاحب عدالتی حکم کے بعد بھی بیوی اور نابالغ بچی کو گزارا بھتہ اور اس کی بقایا رقم کی ادائیگی نہیں کر رہے ہیں خاص بات یہ ہے کہ جج صاحب کی بیوی جج ہیں اور اترپردیش میں ہی تعینات ہیں ۔میاں ،بیوی کے درمیان قانونی جھگڑا چل رہا ہے دونوں 2013سے الگ رہ رہے ہیں ۔میاں بیوی کے درمیان طلاق کا مقدمہ بھی چل رہا ہے ۔روہنی ضلع عدالت کے سامنے میرٹھ میں تعینات جج صاحب نے 4.80لاکھ روپئے کی بقایا رقم میں سے صرف ایک لاکھ روپئے اپنی بیوی کو دیئے اور ماہ اگست کے آخر تک باقی رقم دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے بعد اب تک باقی رقم نہیں دی گئی ۔خاتون جج کی طرف سے وکیل پنیہ کمار سنگھ و ترون نارن نے کورٹ کو بتایا کہ عدالتی حکم کے بعد بھی جج صاحب اپنی بیوی بچوں کو گزارابھتے کی رقم نہیں دے رہے ہیں ۔معاملے کی سماعت 25ستمبر طے ہوئی ہے ۔عدالت نے خاتون جج کی عرضی پر سماعت کے بعد جنوری 2018میں اسے و اسے اس کی نابالغ بیٹی کی خرچ کے لئے ماہانہ 20ہزار روپئے عرضی دائر کرنے کی تاریخ سے بقایا خرچ رقم دینے کا انترم حکم بریلی میں تعینات جج کو دیا تھا ۔متاثرہ نے پچاس ہزارروپئے گزارہ بھتہ دلانے کی مانگ کرتے ہوئے جنوری 2016میں عرضی دائر کی تھی عدالت نے اس فیصلے کو جج صاحب نے ہائی میں چنوتی دی تھی لیکن جسٹس سنجیو سچدیوا نے 19اپریل 2018کے اپنے حکم میں انہیں بقایا رقم (خرچ)کی ادائیگی کا حکم دیا تھا ۔اس کے بعد جج صاحب نے بیوی کو گزارہ بھتہ اور باقی رقم ادا نہیں کی تھی ۔پیش معاملے میں روہنی کی باشندہ متاثرہ خاتون کی شادی 23نومبر2008کو غازی آباد کے باشندے سے ہوئی تھی شادی کے بعد اکتوبر 2010میں انہیں ایک بچی پیدا ہوئی تھی اس کے بعد پہلے پتی اس کے بعد پتنی بھی یو پی میں جج بن گئے متاثرہ کا الزام ہے کہ اس کے پتی و سسرال والوں نے جہیز کے لئے مار پیٹ اور پریشان کرنا شروع کر دیا تھا جب جج صاحب مظفر نگر میں تعینات تھے تو انہوں نے بیوی میں گھر میں گھسنے سے بھی روک دیا تھا اس کے بعد مہیلا جج اپنے والد کے گھر آگئی تھی ۔سسرال والوں نے اسے ایل ایل بی کرنے سے روکا اور اپنی محنت سے امتحان میں پاس ہوئی گئی اور جوڈیشیل سروس میں سیلکشن ہو گیا اس نے پتی کے خلاف 2015میں آلہٰ آباد ہائی کورٹ کو شکایت بھیجی تھی ۔بڑی مشکل کی حالت بن گئی ہے ایک جج اپنے خلاف حکم کی تعمیل نہیں کر رہے ہیں تو آگے کیا ہوگا؟شکایت کنندہ بھی جج ،اور ملزم بھی جج آخر فیصلہ کون کرئے گا؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں