ڈوسوچناﺅ سے پتہ چلے گا دہلی کا موڈ!

دہلی اسمبلی چناﺅ سے قریب پانچ مہینے پہلے ہو نے جا رہے دہلی یونیورسٹی اسٹوڈینٹ یونین (ڈوسو)چناﺅ کافی اہم ہو گئے ہیں ۔بی جے پی کے نیتاﺅں کا کہنا ہے کہ اگر اس سال بھی ڈوسو چناﺅ میں اے بی وی پی کا قبضہ ہو جاتا ہے تو اس کا فائدہ آنے والے چناﺅ میں بی جے پی کو مل سکتا ہے ۔دوسری طرف کانگریس کے نیتا بھی این ایس یو آئی کو جتانے میں لگے ہیں ان کا بھی خیا ل ہے کہ اگر ان کا اسٹوڈینٹ ونگ این ایس یو آئی اور بی جے پی کی اسٹوڈینٹ ونگ اے وی بی پی کو ہرا دیتی ہے تو پارٹی کا حوصلہ بڑھے گا دہلی میں حکمراں عام آدمی پارٹی کی اسٹوڈینٹ ونگ سی وائی ایم ایس چناﺅ میں نہیں ہے حالانکہ کالج سطح پر چناﺅ لڑنے کی چھوٹ اسٹوڈینٹ ونگ کو ضرور دی گئی تھی عآپ کے پردیش صدر گوپال رائے کہہ چکے ہیں کہ ابھی تنظیم کی پوری توجہ دہلی اسمبلی چناﺅ پر ہے ۔اور اس چناﺅ کا اثر دہلی اسمبلی چناﺅ پر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ڈوسو صدارت کے لئے اس مرتبہ چار امیدواروں میں تین لڑکیاں ہیں خاص بات یہ ہے کہ این ایس وی آئی نے بھی صدارت کے لئے گیارہ سال بعد کسی لڑکی کو امیدوار بنایا ہے وہ ہیں چیتنا تیاگی ۔اس کے علاوہ اے وی بی پی نے دامنی کین کو اس عہدے پر اتارا ہے اور تیسری طالبہ شیامہ پرساد مکھرجی کالج کی طالبہ روشنی ہے ۔اس کے علاوہ تین اور جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کے لئے دو لڑکیاں میدان میں ہیں ۔این ایس وی آئی نے اس مرتبہ شہید بھگت سنگھ کالج کی طالبہ چیتنا تیاگی کو اتارا ہے ۔دہلی یونیورسٹی اسوڈینٹ یونین کے چار عہدیداروں کے چناﺅ کے لئے 67امیداواروں نے کاغذات داخل کئے ہیں ۔1924میں امیدوار بودھ اسٹڈیز کے ہیں ۔پانچ ستمبر دوپہر 12بجے تک نام واپس لئے گئے اب بارہ کو مورنگ اور ایونگ میں ووٹ پڑیں گے اس میں مورنگ کے کالجوں کے طالب علم صبح ساڑھے آٹھ بجے سے دوپہر ایک بجے تک اور ایونگ کالج کے طالب علم تین بجے سے شام ساڑھے سات بجے تک ووٹ ڈال سکتے ہیں ۔اگلے دن یعنی تیرہ ستمبر کو ووٹوں کو گنتی ہوگی ۔سیاست کی پرائمری پاٹھ شالہ مانے جانے والے ڈوسو چناﺅ میں بھی قومی سیاست کی طرح ذات پات حاوی رہے گی ۔ڈو سو کا چناﺅی دنگل اہم طور سے اے وی بی پی اور این ایس وی آئی کے درمیان رہتا ہے ۔دونوں ہی تنظیموں کے امیدواروں میں جاٹ اور گجر کا اثر دکھائی دے رہا ہے ۔مرکزی یونیورسٹی ہونے کی وجہ سے دہلی یونیورسٹی میں دیش کے ہر کونے ذات و طبقے کے طلباءو طالبات پڑھتے ہیں لیکن جب ڈوسو چناﺅ کی بات آتی ہے تو ذات پات کا اشو اہم سیکٹر بن جاتا ہے ۔پچھلی کئی دہائیوں کے چناﺅ پر نظر ڈالیں تو ڈوسو کے چناﺅی دنگل میں اے بی وی پی ،این ایس یو آئی سے وابسطہ جاٹ گجر برادری کے امیدوار ہی حاوی رہتے ہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟