ٹرمپ نے طالبان امن سمجھوتہ منسوخ کیا

کابل میں ہوئے طالبان حملے میں ایک امریکی فوجی کی موت کے بعد امریکہ کے صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن سمجھوتے سے پیچھے ہٹنے کا اعلان کیا ہے ۔امریکہ اور طالبان اب تک نو مرحلوں میں امن بات چیت کر چکے ہیں ۔حالیہ اعلان کے بعد بے نتیجہ رہی بات چیت پر ٹرمپ نے کہا کہ طالبان کے نیتاﺅں اور افغانی صدر اشرف غنی کے ساتھ کیمپ ڈیوٹ میں ہونے والی خفیہ میٹنگ کو کابل میں ہوئی بمباری کے پیش نظر منسوخ کردیا گیا اس دھماکے کی ذمہ داری طالبان نے لی تھی ۔جس میں ایک امریکی فوجی سمیت بارہ لوگوں کی موت ہوئی تھی ۔امن مذاکرات ٹوٹنے پر ملا جلا رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے ۔طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کا ٹوٹنا افغانستان کے لئے ایک بار پھر برے دور کی واپسی کے اشارے ہیں ۔اب تک یہ امید بنی تھی آنے والے وقت میں افغان لوگوں کے لئے جلد ہی کوئی اچھی خبر آئے گی ۔لیکن اب امیدوں پر پانی پھر گیا ہے ۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ طالبان جس تشدد کے راستے پر بڑھ چکا ہے اس میں اب امن کی امید ضائع لگتی ہے ۔ٹرمپ نے جو اچانک بات چیت سے ہٹنے کا فیصلہ کیا وہ طالبان کے لئے ایک سندیش ہے ۔اس سے یہ بھی صاف ہو گیا ہے کہ امریکہ طالبان کے تشدد کے آگے نہیں جھکے گا ۔اور اسے سبق سکھانے کی حکمت عملی پر چلے گا ۔ٹرمپ کے بات چیت توڑنے کے بعد طالبان نے افغانستان میں امریکی فوجیوں پر مزید حملے کر نے کی دھمکی دی ہے ۔اتنا صاف ہے کہ امریکہ طالبا ن کو یہ اشارہ نہیں دینا چاہتا کہ وہ مجبوری میں جھک کر فیصلہ کر رہا ہے امریکہ میں ٹرمپ کے ذریعہ بات چیت منسوخ کرنے کا زیادہ تر شہریوں نے حمایت کی ہے ۔ایک سروے میں افغان شہریوں کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے طالبان سے بات چیت منسوخ کرنے کا صحیح فیصلہ لیا ہے ۔آتنکی تنظیم کو افغانستان میں اٹھارہ سال سے زیادہ تشدد ختم کر دینا چاہیے اور دوسری طرف کچھ لوگوں نے طالبان سے گزارش کی ہے کہ وہ جنگ بندی پر امریکہ اور افغانستان سرکار کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کرئے افغانستان کے لئے آنے والا وقت مشکلوں بھرا ہے وہاں اس مہینے کے آخر میں صدارتی چناﺅ ہونے ہیں ۔اگر امن سمجھوتہ ہو جاتا تو طالبان کے لئے افغانستان کے اقتدار کا راستہ کھل سکتا تھا ۔افغانستان کے اقتدارپر طالبان کی پکڑ مضبوط ہونے کا مطلب ہے کہ پاکستان کی طاقت بھی بڑھے گی یہ صورتحال بھارت کی مفادات کے منافی ہے ۔اس نظریہ سے یہ بہتر ہے کہ طالبان کو جتنے وقت تک اقتدار سے دور رکھا جائے گا اتنا ہی بہتر ہو گا امریکی فوج کو افغانستان میں تب تک رہنا چاہیے جب تک افغان سرکار اور افغان فوجی طالبان کا مقابلہ کرنے میں پوری طرح اہل نہیں ہو جاتے ۔امریکہ نے جہاں یہ جتا دیا کہ وہ طالبا ن کی تشدد کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں ۔آنے والے دنوں میں طالبان امریکی فوجیوں پر اور زیادہ حملے کر سکتا ایسا نہیں کہ امن مذاکرات دوبارہ نہیں ہوسکتے یا پھر ہونے کے لئے طالبان کو اپنی حکمت عملی بدلنی پڑے گی جس کے لئے وہ فی الحال تیار نہیں ۔اگر امن مذاکرات کانتیجہ اچھا نکلتا تو پورے جغرافیائی علاقہ کے لئے اچھا ہوتا۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!