مودی کے لندن دورہ میں ترنگے کی توہین
ویسے تو جب وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ اور انگلینڈ کے دورہ پر جاتے ہیں تو بھارت کے وزیر اعظم کے خلاف مٹھی بھر خالصتانی و کشمیری حمایتی احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ میں بہت سال پہلے شری اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ امریکہ و انگلینڈ کے دورہ پر گیا تھا تب بھی ایسے چھوٹے موٹے مظاہرے ہوئے تھے لیکن اس بار جب گزشتہ ہفتہ پی ایم مودی لندن گئے تھے تو وہاں مظاہرہ بہت مشتعل تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں سکھ اور کشمیریوں نے جم کر نعرے بازی کی۔ لندن میں پارلیمنٹ اسکوائر پر علیحدگی پسندوں نے بھارت کے قومی جھنڈے کو جلانے کی کوشش کی۔ اس کے لئے برطانیہ کے محکمہ خارجہ نے حکومت ہند سے معافی مانگی۔ برطانوی حکومت نے معاملہ کی جانچ کے لئے لندن میٹرو پولیٹن پولیس کی خاص ٹیم بنائی ہے۔ اس معاملہ کا اثر وزیر اعظم نریندر مودی کے لندن قیام کے پروگراموں پر پڑا۔ وزارت خارجہ کے مطابق وزیراعظم کے قیام کی میعاد میں 6 گھنٹے کی کٹوتی کی گئی۔ کامن ویلتھ دیشوں کے سربراہ مملکت کی چوٹی کانفرنس میں حصہ لینے پہنچے مودی کی 10 سربراہوں سے باہمی ملاقاتیں ہونی تھیں لیکن انہوں نے آسٹریلیا کے وزیر اعظم میلکم ٹرنبول ،بنگلہ دیشی کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور سیشلز کے صدر ڈینیفائی سے ہی باہمی بات چیت ہوئی اور وہاں سے وہ جرمنی روانہ ہوگئے۔ لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس نے ہندوستانی ہائی کمیشن کو جانکاری دی سکھ فیڈریشن یوکے اور پاکستانی نژاد کشمیری علیحدگی پسند احمد کی رہنمائی میں سرگرم ایک گروپ نے مظاہرہ کیا۔ قریب 500 مظاہرین میں سے کئی کو پہچانا گیا ہے، جلدہی گرفتاری کی امید ہے۔ کامن ویلتھ سربراہ مملکت کی میٹنگ کے موقعہ پرلندن کے پارلیمنٹ اسکوائر میں قاعدے کے مطابق سبھی ملکوں کے جھنڈے قطار میں لگائے گئے تھے۔18 اپریل کو خالصتانی اور کشمیری علیحدگی پسندوں کے ایک گروپ نے وہاں مظاہرہ کے دوران ترنگا اتار کر اپنی تنظیموں کے جھنڈے لگا دئے اور ترنگا جلا دیا۔ جس طرح مودی کے حمایتی ان کا انتظارکرر ہے تھے اسی طرح کچھ مخالف بھی۔ برطانیہ سرکار نے حالانکہ کہا کہ پرامن ڈھنگ سے احتجاج جتانا ہر کسی کا حق ہے۔ ایک جمہوری دیش ہونے کے ناطہ برطانوی حکومت کی اس دلیل کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ احتجاجی مظاہرہ پرامن ہونا چاہئے نہ کے تشدد پر مبنی۔ اس کا مطلب کسی دیش کا جھنڈا جلانا یا پھاڑنا نہیں ہوسکتا۔ مظاہرین اپنے ہاتھوں میں تختیاں لئے ہوئے تھے اور ان پر جو لکھا تھا میں اسے دوہرانا نہیں چاہتا۔ ویسے بھی جو بھی کہنا چاہتے تھے وہ ان کی تختیوں اور ان کے چہرے سے ظاہر ہورہا تھا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں