باباؤں کی بھر مار:اصلی کون نقلی کون؟

آج کل باباؤں کی خبریں سرخیوں میں چھائی ہوئی ہیں۔ اصلی اور نقلی بابا میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔ کونسا بابا اصلی ہے ، کونسا نقلی ہے یہ کون طے کرے گا؟ بہرحال ہندو سنتوں کی بڑی انجمن اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد نے ایتوار کو الہ آباد میں اپنی میٹنگ کے بعد 14 فرضی سنتوں کی لسٹ جاری کی ہے۔ ڈیرہ سچا سودا چیف گورمیت رام رحیم کو سادھوی سے بدفعلی معاملہ میں سزا ملنے کے بعد ہندی دھرم گوروؤں کے کردار، چال چلن پر سوال اٹھنا فطری ہے۔ ایتوار کی صبح مٹ بانچھوری گدی نے اکھاڑہ کونسل کی میٹنگ 14 فرضی باباؤں کی فہرست جاری کر ان کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان میں آسا رام، گورمیت رام رحیم اور رادھے ماں قابل ذکر ہیں۔ اس فہرست میں آسا رام ،رادھے ماں ،سچیدا نند، رام رحیم،اوم بابا، نرمل بابا، بھیما نند، اسیما نند،رامپال، نارائن سائن،کشومونی اور ملکھان گری شامل ہیں۔ اس سلسلہ میں ایسے تو سنتوں کے خلاف کارروائی کرنے کا پہلے ہی من بنا لیا گیا تھا ۔ اس سلسلے میں اکھاڑوں کی پہلی میٹنگ جون میں ہوئی تھی۔ اکھاڑے کے الہ آباد میں واقعہ موجگیری آشرم میں ہوئی تھی ، تبھی ان سنتوں کے خلاف کارروائی کا خاکہ طے کرلیا گیا تھا۔ سبھی اکھاڑوں کو فرضی سنتوں کی فہرست تیار کرنے کو کہا گیا تھا۔ اکھاڑے نے میٹنگ کے بعد سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے نام نہاد سنتوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔ان کو سنت کے نام پر دی جانے والی سہولیات بند کی جائیں۔ سوشل میڈیامیں سنتوں و بڑے لیڈروں کے خلاف ہو رہے غلط الفاظ کے استعمال پر بھی ناراضگی ظاہر کر انتظامیہ سے لگام لگانے کی مانگ کی گئی ہے۔ اصل سوال یہی ہے سچے اور فرضی باباؤں میں فرق کیسے کیا جائے؟ اکھاڑہ پریشد اس معاملہ میں کوئی خاص مدد نہیں کرپا رہا ہے۔ کسی بھی مذہب میں شبہ اور ڈھونگی دلیلوں کے لئے زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ کسی بابا کی میٹھی میٹھی باتوں میں آکر کوئی ایک بار اس پر بھروسہ کرلے تو پھر اس کے لئے بابا کو آزمانے کے سارے راستے بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد نے ’سنت ‘کی اپادھی دینے کیلئے باقاعدہ کارروائی مقرر کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ گرمیت رام رحیم جیسے لوگوں کو اس کا غلط استعمال کرنے سے روکا جاسکے۔ وشو ہندو پریشد کے جوائنٹ سکریٹری سریندر جین نے کہا کہ سنتوں کے درمیان یہ احساس ہے ایک یا دو دھارمک نیتاؤں کے غلط کاموں کی وجہ سے پوری برادری کیساکھ کو غلط طریقے سے دکھایا جارہا ہے۔ بی ایچ پی اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشدکے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ جین نے کہا کہ اب کسی شخص کی پڑتال کرنے اور اس کے نظریہ کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی یہ اپادھی دی جائے گی۔ انہوں نے کہا یہ اپادھی دینے سے پہلے اکھاڑہ پریشد یہ بھی دیکھے گی کہ شخص کا طریقہ زندگی کس طرح کی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟