بچوں کی سلامتی کسی ایک اسکول کا نہیں پورے دیش کا معاملہ ہے

گوروگرام کے ایک اسکول میں پچھلے جمعہ کو جو کچھ ہوا وہ صرف ایک شہر یا ایک ریاست کا مسئلہ نہیں ہے یہ پورے دیش و سماج کا مسئلہ ہے۔ رائن اسکول کے سات سالہ بچے پردھومن کے قتل کے معاملہ میں والد کے ذریعے واقعہ کی سی بی آئی جانچ کی مانگ کو لیکر دائر عرضی پر سپریم کورٹ نے کہا یہ ایک اسکول کا معاملہ نہیں، بلکہ پورے دیش سے جڑا معاملہ ہے۔ پردھومن کے والد ورون ٹھاکر کے وکیل کے مطابق ہم نے کہا ہے کہ اسکول کی خامیوں پر ذمہ داری طے ہو۔ کمیشن یا ٹریبیونل بنایا جائے۔ سماعت کرتے وقت چیف جسٹس ڈیپک مشرا کی بنچ نے سی بی ایس ای سے بچوں کی سکیورٹی اور اسکول مینجمنٹ کی ذمہ داری طے کرنے کی گائڈ لائن پر تین ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔ پردھومن کی جن حالات میں موت ہوئی وہ نہ صرف بیحد سنگین ہے بلکہ ایک چمک دمک بھرے پرائیویٹ اسکولوں کے سیاہ موقف کا ایک اور حیران کرنے والی مثال بھی ہے۔ اسکول کے ٹوائلٹ میں ایک بچے کی گردن چاقوسے کاٹی گئی اورکسی کو بدقسمت بچے کی چیخ تک نہیں سنائی پڑی۔ کسی بھی اسکول میں طالبعلم کے ساتھ ایسی بربریت بہت ہی افسوسناک ہے۔ اس خوفناک واقعہ نے اسکولوں میں بچوں کی سلامتی کے سوال سے کہیں زیادہ خطرناک شکل سامنے لادی ہے۔ بچوں کے لئے گھر کے بعد سب سے محفوظ مقام اسکول ہوتا ہے لیکن اگر وہاں بھی بچے محفوظ نہیں رہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسکولوں کا انتظامیہ ان کی سلامتی میں لاپروائی برت رہا ہے۔ پچھلے سال نئی دہلی کے وسنت کنج میں اسی اسکول کی ایک برانچ کے واٹر ٹینک میں گر کر چھ سال کے ایک طالبعلم کی موت ہوگئی تھی۔ یہ حیرانی کی بات ہے کہ پرائیویٹ اسکول عمدہ پڑھائی اور شاندار سہولیت کے لئے بھاری فیس تو لیتے ہیں، لیکن وہ کسی طرح کی ذمہ داری نہیں لیتے۔ گوڑگاؤں کے واقعہ سے والدین میں دہشت پھیلنا فطری ہی ہے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد دہلی کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پانچ سال کی معصوم بچی کے ساتھ آبروریزی کی واردات سامنے آئی ہے۔ ایسے حادثہ لگاتار سامنے آرہے ہیں اور اس سے ایک بات تو صاف ظاہر ہورہی ہے کہ اسکول انتظامیہ کا دھیان صرف موٹی فیس اور ڈونیشن وصول کرنا رہ گیا ہے۔ ہمارے دیش میں تعلیم ایک ایسادھندہ بن گیا ہے جو کسی کے تئیں جواب دہ نہیں ہے۔ بچوں کی سیفٹی کو لیکر سی بی ایس ای کے ذریعے باقاعدہ ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ سی بی ایس ای نے اسکول کمپلیکس میں سی سی ٹی وی اور چہاردیواری ، سکیورٹی خامیاں پائی گئیں اور بچوں کو سہولیت سے آراستہ بس دستیاب کرانے، بس میں سی سی ٹی وی لگانے کی ہدایت دی گئیں تھیں لیکن والدین سے موٹی فیس اور طرح طرح کی متوں میں فاضل پیسہ وصولتے رہنے والے اسکول سکیورٹی قواعد پر کھرے نہیں اتر رہے ہیں جبکہ اخلاقی طور سے قانونی طور سے بھی بچہ جب تک جس ادارہ کی نگرانی میں ہے تب تک سکیورٹی کی ذمہ داری اسی کی ہے۔ یہ واقعہ قومی تشویش کا موضوع بنناچاہئے کہ ایسے معاملہ لگاتار بڑھ رہے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ بچوں کا اسکول جانا خطرے بھرا ہوگیا ہے۔ کبھی وہ اسکول کی بس یا وینمیں واردات۔ حادثہ سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی اسکول کمپلیکس کے اندر ہی۔ سب سے زیادہ گھناؤنی بات یہ ہے کہ وہ جنسی ٹارچر کے بھی شکار بننے لگے ہیں۔ بچوں کی سلامتی کو لیکر طے پیمانوں پر ہمیشہ اسکول انتظامیہ سے سوال پوچھے جانے چاہئیں اور باآور ہونا پڑے گا کہ اسکول میں سی سی ٹی وی کیمرے کام کررہے ہیںیا نہیں؟ ملازمین کی ویری فکیشن ہوئی ہے یا نہیں؟ ٹوائلٹ میں سکیورٹی کا کیا انتظام ہے، کیا سسٹم ہے؟ اسکولوں کو اپنے سبھی ملازمین کا نام ، پتہ ،ٹریک ریکارڈ ،رابطہ نمبر وغیرہ تفصیل بتانی چاہئے اور پوچھنے پر یہ بھی بتانا چاہئے کہ انہیں کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ مفت میں یا بہت معمولی تنخواہ پر کام کرنے والوں سے بھلا کتنے پیشہ ور وں کی امیدیں کی جاسکتی ہیں۔ دیش بھر میں پرائیویٹ اسکولوں پر لگام لگانے کا وقت آگیا ہے، تاکہ تعلیم کے مندروں کو تجارت میں بدل دینے کا ٹرینڈ بند ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!