گوڑ گاؤں پولیس کمشنر اور جوائنٹ سی پی میں ٹھنی

بدفعلی کے ایک ہائی پروفائل معاملے میں ہریانہ پولیس کے دو سینئر پولیس افسر آمنے سامنے آگئے ہیں۔ گوڑ گاؤں کے سابق ڈپٹی کمشنر کے بیٹے اجے بھاردواج پر لو ان پارٹنر سے آبروریزی کے الزام کی جانچ کو لیکر پولیس کمشنر نودیپ سنگھ ورک جوائنٹ کمشنر (ٹریفک) بھارتی اروڑہ نے میڈیا کے سامنے ایک دوسرے پر سنگین الزام لگائے۔ بھارتی اروڑہ نے شکایت ڈی جی پی سے بھی کی ہے۔ سرکار نے ڈی جی پی کرائم کو پورے معاملے کی جانچ کرنے کو کہا ہے۔ جانچ اب نئے سرے سے چلے گی۔ تنازعے کی جڑ سابق آئی ایس ،آر پی بھاردواج کے خاندان سے متعلق ہے۔ دراصل آبروریزی کے معاملے کی جانچ بھارتی اروڑہ کررہی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ پولیس کمشنر متاثرہ لڑکی کی مرضی کے مطابق رپورٹ بنانے کیلئے دباؤ بنا رہے ہیں اور انہیں پریشان کررہے ہیں۔ کیریئر خراب کرنے تک کی دھمکی دے رہے ہیں۔ سارا معاملہ کچھ اس طرح ہے۔ اجے بھاردواج گوڑ گاؤں کے سابق ڈپٹی کمشنر آر پی بھاردواج کا بیٹا ہے اور ایم اینفی میں کام کرتا ہے۔ مس چنڈی گڑھ رہ چکی لو ان پارٹنر نے الزام لگایا ہے کہ اجے نے آر ڈی سٹی میں واقع گھر میں تین سال سے بھی زیادہ وقت تک آبروریزی کی۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ بیوی سے طلاق لے کر اس سے شادی کرے گا۔ دفعہ376 اور 506 کے تحت26 جولائی 2014ء کو معاملہ درج کیا گیاتھا۔ بھارتی نے پورے معاملے کی سی بی آئی جانچ کرانے کی مانگ کی ہے۔ بھارتی کا کہنا ہے کہ ورک کے اشارے پر اجے و ان کے گھروالوں کو ملزم بنایا گیا ہے۔ اجے اور وہ عورت دونوں سات سال سے لو ان ریلیشن میں تھے۔ ان کے دو بچے بھی ہیں۔ ایسے میں ریپ کا معاملہ نہیں بنتا۔ ورک اقدام قتل کا معاملہ درج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم نے مخالفت کی ،ڈی جی پی نے جانچ سونپی اس سے پہلے ورک نے معاملہ کورٹ میں پہنچادیا۔ پولیس کمشنر کے اشارے پر اجے کی طرفداری ہوئی۔ ادھر ورک نے پلٹ وار کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی ریپ کے ملزم کو بچا رہی ہے۔ الزام بے بنیاد ہے۔ معاملہ میں کوئی دخل اندازی نہیں کی گئی۔معاملہ 26 جولائی 2004 کو درج ہوا۔ 28 جولائی کو ملزم گرفتار ہوا۔ معاملہ23 نومبر کو میرے جوائن کرنے کے کچھ ہی ماہ پہلے ہوا تھا۔ متاثرہ نے الزام لگایا ہے کہ بھارتی ملزم کی بہن ہے اس لئے وہ ملزم کو بچا رہی ہے۔ معاملے کی رپورٹ ڈی جی پی کو بھیج دی گئی ہے۔ وزیر اعلی منوہر لال نے ریاستی پولیس چیف ڈی جی پی یشپال سنگھل سے پوری رپورٹ مانگی ہے۔ ادھر ڈی جی پی سنگھل نے دونوں آئی پی ایس افسران کی شکایت ملنے کا دعوی کرتے ہوئے شعبہ جاتی جانچ کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کی بات کہی ہے۔ ایسے معاملے کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جب ریاست کے سب سے سینئر پولیس افسران اس طرح کے معاملے کو لیکر آمنے سامنے آگئے ہوں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟