دہلی میں بجلی شرحوں پر روک لگانے کا کریڈٹ کیجریوال سرکار کو ہے

دہلی کے شہریوں نے تب راحت کی سانس ضرور لی ہوگی جب دہلی الیکٹری سٹی ریگولیٹری کمیشن( ڈی ای آر سی) نے اپنا فیصلہ سنایا کہ دہلی میں بجلی کے داموں میں اضافہ نہیں ہوگا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پچھلے چار برسوں میں 2011 سے یہ پہلی بار ہے جب ڈی ای آر سی نے عوام کو راحت دی ہے۔ بڑھتی مہنگائی کے اس دور میں بجلی بلوں کی مارنے پہلے ہی بوجھ سے دبے دہلی کے شہریوں کی کمر توڑ رکھی ہے۔ ان بجلی کمپنیوں کو تو دہلی کے شہریوں کو لوٹنے کا لگتا ہے کھلا لائسنس ملا ہوا ہے۔ ہمیں کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ان بدلے حالات کا کافی کریڈٹ عام آدمی پارٹی کو جاتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کا یہ دعوی صحیح تھا کہ بجلی کمپنیاں اناپ شناپ طریقے سے خرچے بڑھا کر دکھاتی ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر اپنا خسارہ بھی بڑھا دیتی ہیں۔ حال ہی میں سی اے جی کی لیک ہوئی رپورٹ میں وزیر اعلی اروند کیجریوال نے بجلی کمپنیوں پر جو الزام لگائے تھے وہ پے در پے سو فیصدی صحیح ثابت ہوئے ہیں۔ اب تک بجلی کمپنیاں جھوٹا خسارہ دکھا کر جبلی کے دام بڑھا لیا کرتی تھیں۔ جس کے بارے میں بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ تو کانگریس احتجاج کیا کرتی تھی اور نہ ہی بھاجپا۔ کیجریوال کا سخت موقف اور سی اے جی کی رپورٹ نے ان بجلی کمپنیوں کے گورکھ دھندے کا پردہ فاش کردیا ہے۔ ان میں ریلائنس کمپنی، ٹاٹا پاور دونوں شامل ہیں۔ حیرانی تو ٹاٹا جیسے صنعت کار کے ذریعے دھاندلی کرنے کے الزامات پر ہے۔ ٹاٹا ہاؤس سے یہ کبھی امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ بھی ایسے گورکھ دھندے میں شامل ہوگی۔ بجلی کمپنیوں کے خسارے میں اس سال کروڑوں روپے کی کمی آئی ہے۔ اس سے بھی صاف ہے کہ بجلی کمپنیوں کو نقصان کی وجہ دہلی میں بجلی کے دام کی وجہ سے نہیں ہورہا تھا بلکہ انتظام کی خامیوں اور بجلی چوری سے ہورہا تھا۔ اس میں ایک اہم وجہ مہنگی بجلی کی خریداری بھی تھی۔ اس میں کوئی نہ کوئی گڑ بڑی ضرور تھی نہیں تو بغیر ڈی آر سی ’’نو آبجیکشن‘‘ سرٹیفکیٹ حاصل کئے یا دادری پلانٹ سے وہ مہنگی بجلی کیوں خریدتی؟ کیا وجہ ہے کہ اب بجلی کمپنیوں کو موجودہ بجلی شرح پر بجلی سپلائی کرنے سے سال2015-16 میں قریب445 کروڑ روپے کا فائدہ ہونے کی امید ہے۔ کیا ہم اس سے یہ نتیجہ نکالیں کے بجلی کمپنیاں زبردستی خود کو خسارے میں دکھا رہی تھیں اور بہت غور کرنے والی بات یہ ہے کہ دہلی ودیوت بورڈ کے قریب25 ہزارملازمین کی پنشن کا بوجھ صارفین پر کس حساب سے ڈالا جارہا ہے؟ جب سرکار نے2002ء میں بجلی کا نجی کرن کرتے وقت ان کی پنشن کے لئے ایک پنشن ٹرسٹ فنڈ بنا کر اس میں اتنی رقم جمع کردی تھی کہ وہ زندگی بھر پنشن پا سکیں۔ پھر اس رقم کو کس دیگر مد میں کیسے خرچ کیا گیا؟ اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ معاملہ اب عدالت میں زیر سماعت ہے۔ پھر پنشن کی رقم کا بوجھ صارفین پر کیوں ڈالا گیا؟ ڈی آر سی کے صارفین اور جنتا کے مفادات کے لئے بنایا گیا ہے نہ کے آپ بجلی کمپنیوں سے مل کر جنتا کولوٹیں۔ ڈی آر سی کی تشکیل نو ہونی چاہئے اور ایماندار عوام کے تئیں ہمدردی رکھنے والے افسران کو اس میں شامل کیا جانا چاہئے۔ ڈی آر سی کی لاپرواہی اور بجلی کمپنیوں کی دھاندلے بازی کا خمیازہ بجلی صارفین بھگت رہے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ راحت کا یہ سلسلہ آنے والے برسوں میں بھی دہلی کے شہریوں کو ملتا رہے گا اوراس لوٹ مار پرپوری طرح لگام لگے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!