مودی کے نکتہ چیں بھی مانیں گے کہ انہوں نے ہندوستان کی شان بڑھائی ہے

میں وزیر اعظم نریندر مودی کا دیوانہ نہیں ہوں اور نہ ہی نکتہ چیں۔ میں نہ تو ان کی ہر بات کی آنکھ بند کرکے تعریف کرتا ہوں اور نہ ہی ہر بات میں خامیاں ہی ڈھونڈتا ہوں۔ مجھے جو بات اچھی لگتی ہے وہ کہہ دیتا ہوں اور جو نہیں وہ بھی کہہ دیتا ہوں۔ اس بات کو تو ان کے نکتہ چینی کرنے والے بھی مانیں گے کہ نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد دنیا میں بھارت کی ایک نئی پہچان بنائی ہے اور ہندوستانیوں کا سر شان سے دوبالا کیا ہے۔ نہیں تو بیرونی ممالک میں بھارت کی ساکھ یہ بن گئی تھی کہ بھارت تو سپیروں کادیش ہے جہاں سڑکوں پر ہاتھی چلتے ہیں۔ جس طرح سے امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک میں جہاں بھی مودی گئے ہیں ، ان کا خیر مقدم ہوتا ہے یہ بہت اہم ہے۔یہ خیر مقدم کوئی اسٹیج کے ذریعے انتظام کیا ہوا نہیں ہے۔ انہوں نے ہمیشہ بھارت کے مفاد کی بات کی ہے اور دیش کو آگے رکھا ہے۔ حالیہ امریکی دورہ پر جس طرح سے ان کا گرمجوشی سے خیر مقدم ہوا ہے ایسا کسی بھی پی ایم کا نہیں ہوا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ جنہیں امریکہ کا پٹھو مانا جاتا تھا ، انہیں بھی کبھی اتنا شاندار خیر مقدم نہیں ملا۔بھارت تو تب بھی اتنا بڑا تھا اور اتنی ہی بڑی مارکیٹ تھی لیکن ان سب کے باوجود وہ دنیا کے پس منظر پر کوئی چھاپ نہیں چھوڑ پائے۔ نریندر مودی بھلے ہی ہندوستان کے اندر نکتہ چینیوں کا سامنا کررہے ہوں، اپنے دیش میں مودی کی تنقید ہورہی ہے اور پوچھا جارہا ہے کہ ان اچھے دنوں کا کیا ہو جس کے ڈھیر سارے وعدے انہوں نے کئے تھے؟ چناؤ میں شرمناک پٹخنی کھا چکی کانگریس اپنی خفت میں انہیں ہوا باز اور این آر آئی پی ایم جیسے لقب سے نواز رہی ہو لیکن اندر خانے وہ بھی جانتے ہیں کہ مودی نے دنیا میں بسے ہر ہندوستانی کو نئی پہچان اسی دیش میں دی ہے۔ گوگل ، فیس بک اور مائیکرو سافٹ و ایپل کمپنیوں کے سی ای او کوئی معمولی شخص نہیں ہوتا یہ اس وقت دنیا کے سب سے اچھی دماغدار شخصیتیں ہیں تبھی تو اربوں روپے کی کمپنیاں چلا رہے ہیں۔ ان سرکردہ بزنس مین ہستیوں سے بیٹھ کر انہی کی زبان میں بات کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ان سے ان کی سطح پر بات کرنے کے لئے آپ کو بھی ان کے برابر صلاحیت چاہئے ،معلومات چاہئے۔ سلی کوم ویلی میں جاکر پی ایم نے بھارت کو آج دنیا کو ڈیجیٹل ورلڈ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور میں یہ سب سرکردہ نامی گرامی کمپنیاں ڈیجیٹل انڈیا میں مدد کرنے کو آج اگر بے چین ہیں تو اس کی وجہ نریندر مودی ہیں۔ راجیو گاندھی پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے کمپیوٹر لانے کی بعد کہی تھی، ان کے بعد اب مودی ہی ہیں جنہوں نے راجیو گاندھی کے ویژن کو آگے بڑھایا ہے۔ مودی میں زوردار تقریر کرنے اور اچھے مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے کے دل کو چھونے والی بات کرنے کا فن ہے۔ مودی جب فیس بک ہیڈ کوارٹر گئے وہاں کے سی ای او مارک جکربرگ کے ساتھ انہوں نے یہاں کے لوگوں کے سوالات کے جواب دئے۔ سوالات کے سیشن کے دوران مارک نے بتایا کہ ایک ایسا وقت تھا جب فیس بک خریدنے کے لئے لوگوں کے فون آیا کرتے تھے ۔ میں بھی پریشان چل رہا تھا ، تب میں اسٹیل جابس کے پاس گیا ۔ انہوں نے کہا بھارت جاؤ تو مندر ضرور جانا۔ میں بھارت گیا مندر گیا مجھے مندر سے آگے کا راستہ ملا۔ دیکھئے آج میں کہاں آگیا۔ جکر برگ نے ڈیجیٹل انڈیا کو سپوٹ کرنے کے لئے پروفائل پکچر کو ترنگے کے رنگ میں رنگ دیا۔ فیس بک کے ہزاروں، لاکھوں لوگوں نے اپنی پروفائل پکچر ترنگے میں رنگ دی۔ کیا یہ بھارت اور مندر کے بڑکپن اور احترام کو بھی دکھاتا ہے؟ سوال جواب کے دور میں مارک نے مودی کی ماں کا ذکر کیا۔ مودی نے کہا میں غریب پریوار سے ہوں۔ بچپن میں چائے بیچی ہے۔ میرے پتا جی نہیں رہے میری ماں کی 90 سال سے زیادہ عمر ہے اور آج بھی وہ اپنے سارے کام خودکرتی ہیں۔ جب ہم چھوٹے تھے تو گزر بسر اور ہماری پرورش کرنے کیلئے میری ماں گھروں میں برتن صاف کیا کرتی تھیں۔ یہ کہتے ہوئے ان کا گھر بھر آیا۔ یہ بات وہاں موجود سینکڑوں فیس بک ملازمین، جن میں زیادہ تر ہندوستانی نژاد تھے ، کے دل کو چھو گئی۔ یہ خاصیت مودی میں ہے کہ وہ ایسی بات کر جاتے ہیں کہ جس سے ہر سامع اپنے آپ کو ان سے جوڑ لیتا ہے۔ اسی وقت مارک جکر برگ کے ماں جو ہال کے اندر موجود تھے کھڑے ہوکر تالیاں بجا کر ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ ایک سوال آیا کہ کیا دنیا بھارت کو امید بھری نظروں سے کیوں دیکھے؟ مودی نے جواب دیا بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوریہ ہے اور دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی معیشت ہے۔ پچھلے سوا سال میں آپ کسی ہندوستانی سے پوچھیں تو ان کا نظریہ بدلا ہے۔ وہ بھارت کو بڑے فخر کے جذبے سے دیکھتا ہے؟ بھارت سرمایہ کاری کے لئے ایک بہتر متبادل کی شکل میں ابھر رہا ہے۔ ہم بھارت کو 8 ٹریلین سے 20 ٹریلین کی معیشت بنانا چاہتے ہیں۔مودی نے امریکی دورہ کے آخری دن سیمپ سینٹر میں دہشت گردی کو لیکر پاکستان پر زبردست تنقید کی۔ انہوں نے یہاں ہندوستانی نژاد 18 ہزار لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا دنیا میں اچھی اور بری دہشت گردی کو لیکر بحث چل رہی ہے۔ دہشت گردی دہشت گردی ہوتی ہے ہم دنیا کو دہشت گردی کے بارے میں سمجھا رہے ہیں اور دنیا ہم پر ہی سوال کھڑے کررہی ہے۔ دہشت گردی دنیا کے کسی بھی حصے میں پہنچ سکتی ہے۔ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کی تشریح کو واضح کرے تاکہ دنیا طے کرلے کے کس راستے پر چلنا ہے اور دنیا میں امن ہو۔ انہوں نے کہا اقوام متحدہ نے 70 برسوں میں دہشت گردی کے بارے میں کوئی تشریح نہیں کی ہے۔ ایسے میں تو دہشت گردی کو ختم کرنے میں کتنے سال لیں گے آپ۔ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں نے دنیا کے سبھی ملکوں کو خط لکھ کر دہشت گردی پر سخت قدم اٹھانے کی اپیل کی ہے۔ آخر میں بتادوں کے جس وقت مودی امریکہ میں تھے اسی وقت پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی وہاں اقوام متحدہ میں خطاب کرنے گئے تھے۔ اب سنئے پاکستانی میڈیا کی اس دورے کے بارے میں وہ کیا کہتا ہے۔ پاکستان کے ایک اخبار میں مودی کو ایک راک اسٹار ، چالاک سیاستداں بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ میں ان کا ہر جگہ ایک راک اسٹار کے طور پر خیر مقدم ہوا۔ پاکستان کے ایک دوسرے نامور اخبار ’دی نیشن‘ نے اپنے اداریہ میں جہاں وزیر اعظم مودی کی جم کر تعریف کی وہیں ان کے بہانے اپنے وزیر اعظم کو بھی کوسا۔ اخبار نے لکھا ہے کہ ہر طرف بھارت کے مودی کئی تقریب اور پروگراموں میں شرکت کررہے ہیں اور اپنی بات رکھتے ہیں، وہیں ہمارے وزیر اعظم(شریف) کے پاس اپنی بات رکھنے کے لئے صرف اقوام متحدہ ہی ایک اسٹیج ہے۔ اداریہ میں مودی کے گوگل اور فیس بک ٹاؤن ہال جانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اخبار نے پوچھا ہے کہ مودی سلی کوم ویلی کے سی ای او کو بھارت کی تعمیر نو کرنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم کیا کررہے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟