پہلی بار حج حادثہ سے شروع ہوا اور حادثہ پر ختم
یہ دن دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے سب سے مقدس دنوں میں سے ہے۔ان دنوں لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر سے مسلمان حج کرنے کیلئے سعودی عرب واقع مقدس مکہ جاتے ہیں۔ وہ وہاں اس امید میں جاتے ہیں کہ ان کی جیون بھر کی آرزو پوری ہو۔ پر جب ان میں سے کچھ کیلئے یہ زندگی کا آخری سفر بن جائے تو ان کے خاندان والوں کے دکھ کو ہم سمجھ سکتے ہیں۔ کچھ کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ مقدس مسجد کے نزدیک ہوئی زبردست بھگدڑ نے عید الاضحی کی خوشیوں کو ماتم و غم میں بدل دیا۔ مکہ کے قریب مینا میں حج سفر کے آخری دن جمعرات کو مچی بھگدڑ میں کم سے کم717 لوگوں کی موت ہوگئی۔ یہ اعدادو شمار شروعاتی ہیں اور یہ بڑھ بھی سکتے ہیں۔ بیشک یہ حج سفر کے دوران گزشتہ 25 سال میں ہوئے حادثوں میں سب سے بڑا حادثہ بن سکتا ہے۔شیطان کو پتھر مارنے کی جگہ جمرات کے قریب ایک چوراہے پر ایک ساتھ دو طرف سے بھاری تعداد میں زائرین کے آنے سے گلی میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس سال ڈیڑھ لاکھ بھارتیوں سمیت دنیا بھر سے 20 لاکھ سے زیادہ زائرین سفر حج کے لئے مکہ پہنچے ہیں۔ پہلی بار حج کے دوران دو بڑے حادثے ہوگئے۔
حج شروع ہونے سے ٹھیک پہلے 11 ستمبر کو مکہ کی مسجد الحرام میں کرین گرنے سے115 لوگوں کی موت ہوگئی اور اب حج کے آخری دن اس بھگدڑ میں سینکڑوں زائرین اللہ کوپیارے ہوگئے۔ 1990 ء سے لیکر 2006ء تک 7 حادثے ہو چکے ہیں جس میں کل 2460 زائرین کی موت ہوچکی ہے۔اپنے90 شہریوں کی موت پر خفا ایران نے حادثہ کے لئے سعودی عرب کو سیدھا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ایران کی حج تنظیم کے چیف سید مہدی نے کہا کہ بنا کسی معلوم وجوہات کے شیطان کو پتھر مارنے کی علامتی جگہ کے نزدیک دو راستوں کو بند کردیا گیا۔ اسی وجہ سے یہ دردناک حادثہ ہوا۔ایسا لگتا ہے کہ اوپر والا سعودی عرب پر قہر ڈھا رہا ہے۔ بھولنا نہیں چاہئے کہ اس حادثے سے کچھ دن پہلے مکہ میں ہی ایک کرین کے گرنے کی وجہ سے100 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ چھوٹی سی جگہ پر لاکھوں کی تعداد میں آئے حاجیوں کا انتظام کرنا آسان بات نہیں ہے۔اس سال ہی قریب20 لاکھ زائرین حج مکہ پہنچے ہیں مگر کہیں کچھ خامیاں تو ضرور رہ گئی ہوں گی جس کی وجہ سے بھگدڑ کو روکا نہیں جاسکا۔ی یہ سچ ہے کہ دنیا بھر میں قدرتی آفات سے ہوئے نقصان کو کافی حد تک روکنے کا سسٹم تیارکرلیا گیا ہے مگر مذہبی مقامات پر ہونے والے حادثوں پر قابو کرنے کا کوئی سسٹم اب تک تیار نہیں ہوسکا ہے۔ دنیا کی ساری قدیم مذہبی سفر اوررسمیں تب بنیں جب دنیا بالکل الگ تھی۔ گزشتہ تقریباً100 سال سے دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے۔اس سے مذہبی مقامات کے انتظام کی چنوتیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ مذہبی سفرآستھا خوشی اور شانتی کے لئے ہوتے ہیں ۔ انہیں حادثات میں بدلنے سے روکنے کیلئے سبھی کو کوشش کرنی چاہئے۔
حج شروع ہونے سے ٹھیک پہلے 11 ستمبر کو مکہ کی مسجد الحرام میں کرین گرنے سے115 لوگوں کی موت ہوگئی اور اب حج کے آخری دن اس بھگدڑ میں سینکڑوں زائرین اللہ کوپیارے ہوگئے۔ 1990 ء سے لیکر 2006ء تک 7 حادثے ہو چکے ہیں جس میں کل 2460 زائرین کی موت ہوچکی ہے۔اپنے90 شہریوں کی موت پر خفا ایران نے حادثہ کے لئے سعودی عرب کو سیدھا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ایران کی حج تنظیم کے چیف سید مہدی نے کہا کہ بنا کسی معلوم وجوہات کے شیطان کو پتھر مارنے کی علامتی جگہ کے نزدیک دو راستوں کو بند کردیا گیا۔ اسی وجہ سے یہ دردناک حادثہ ہوا۔ایسا لگتا ہے کہ اوپر والا سعودی عرب پر قہر ڈھا رہا ہے۔ بھولنا نہیں چاہئے کہ اس حادثے سے کچھ دن پہلے مکہ میں ہی ایک کرین کے گرنے کی وجہ سے100 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ چھوٹی سی جگہ پر لاکھوں کی تعداد میں آئے حاجیوں کا انتظام کرنا آسان بات نہیں ہے۔اس سال ہی قریب20 لاکھ زائرین حج مکہ پہنچے ہیں مگر کہیں کچھ خامیاں تو ضرور رہ گئی ہوں گی جس کی وجہ سے بھگدڑ کو روکا نہیں جاسکا۔ی یہ سچ ہے کہ دنیا بھر میں قدرتی آفات سے ہوئے نقصان کو کافی حد تک روکنے کا سسٹم تیارکرلیا گیا ہے مگر مذہبی مقامات پر ہونے والے حادثوں پر قابو کرنے کا کوئی سسٹم اب تک تیار نہیں ہوسکا ہے۔ دنیا کی ساری قدیم مذہبی سفر اوررسمیں تب بنیں جب دنیا بالکل الگ تھی۔ گزشتہ تقریباً100 سال سے دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے۔اس سے مذہبی مقامات کے انتظام کی چنوتیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ مذہبی سفرآستھا خوشی اور شانتی کے لئے ہوتے ہیں ۔ انہیں حادثات میں بدلنے سے روکنے کیلئے سبھی کو کوشش کرنی چاہئے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں