سپا اور بھاجپا میں دنگا کرانے کی دوڑ لگی تھی: جسٹس سہائے
اترپردیش کے مظفر نگر میں 2013 ء میں دنگوں کی جانچ کرنے والی جسٹس وشنو سہائے نے اپنی رپورٹ گورنر رام نائک کو سونپ دی ہے۔ وشنو سہائے کمیشن نے اترپردیش میں حکمراں سماج وادی پارٹی اور مرکز میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کو عوامی کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ حالانکہ کمیشن کے نتیجوں کے بارے میں سرکاری طور پر ابھی کچھ تو نہیں بتایا جاسکتا لیکن میڈیا سے ملی اطلاعات سے اشارہ ضرور ملتا ہے کہ کمیشن نے بھاجپا اور سپا کے کچھ لیڈروں کو تشدد بھڑکانے کا قصوروار پایا ہے۔ رپورٹ تیار کرنے کیلئے سہائے کمیشن پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں تھا۔ پوری رپورٹ عدالت کی کارروائی کی طرح حقائق کی باریکی سے جانچ پڑتال کرنے کے بعد ہی بنائی گئی ہے۔ مظفر نگر فسادات کی جانچ کیلئے تشکیل کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس وشنو سہائے نے پچھلے ہفتے یہ بات کہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ بال ٹھاکرے سے لیکر مایاوتی تک کے مقدموں کی سماعت کرچکے ہیں لہٰذا کسی طرح کے دباؤ میں آنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اترپردیش کے وزیر اعلی اکھلیش یادو نے گذشتہ جمعہ کو جے پور میں آل انڈیا یوتھ مہا سبھا کے دو روزہ سمیلن کے بعد اخبار نویسوں سے کہا کہ جسٹس وشنو سہائے کمیشن کی رپورٹ سرکار کو ملی ہے اور سرکار اب اسے اسمبلی میں پیش کرے گی۔ غور طلب ہے کہ سال2013ء میں ان فسادات کو روکنے میں ناکامی کو لیکر سپا سرکار تنقید کے مرکز میں آئی تھی۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی دنگا متاثرین کی بازآبادکاری کے معاملے میں اکھلیش یادو سرکار کو پھٹکار لگائی تھی، لیکن اب سپا کو زیادہ مشکل سوالات کے جواب دینے ہوں گے۔ سہائے کمیشن کی تشکیل اکھلیش سرکار نے ہی کی تھی۔ اسے اگر دنگوں کے پیچھے کچھ سپا لیڈروں کے بھی ہاتھ ہونے کے ثبوت ملیں ہیں تو اس سے پارٹی کے لئے اپنا بچاؤکرنا بیحد مشکل ہوسکتا ہے۔ لوک سبھا چناؤ سے پہلے ہوئے ان فسادات کے بعد یوپی میں بھاجپا اور اس کے ساتھیوں نے 80 میں سے73 سیٹوں پر قبضہ جمایا تھا۔ جسٹس سہائے کا کہنا ہے کہ اگر دنگے نہ ہوتے تو سیاسی تصویر بدل سکتی تھی۔ سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو بڑے وسیع پیمانے پر چھایا ،وہ بھی دنگوں کا بڑا سبب تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ویڈیو باہر کا ہے اسے جان بوجھ کر چلایاگیا۔ خاص فرقے کے لوگوں کے گھروں اور آس پاس کی دیواروں پر رات بھر بھڑکیلے نعرے کیوں لکھے جارہے تھے؟ افواہ پھیلائی گئی کہ پاکستان کے خاص آتنکی چھپے ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پر اکثریتی فرقے کو منظم کیا گیا۔ 27 اگست2013ء کو کوال گاؤں میں ایک لڑکی سے ایک لڑکے نے چھیڑ خانی کی تھی۔ اس پر لڑکی کے دو بھائیوں نے اس کا قتل کردیا تھاجواب میں کارروائی میں مارے گئے شخص کے بھائیوں نے قتل کرنے والے لڑکی کے دونوں بھائیوں کو بھی مار دیا تھا۔ ملک برادری کے کھاپ پنچایت نے 7 ستمبر کو مہا پنچایت بلائی۔ اس کے انعقاد میں حصہ لینے والوں پر ہوئے حملوں اور جوابی کارروائی کے بعد وسیع پیمانے پرفساد بھڑک گیا اور65 لوگ مارے گئے۔ سینکڑوں اقلیتی افراد اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور کیمپوں میں رہنے لگے۔ مظفر نگر میں اس سے پہلے کبھی دنگا نہیں ہوا تھا۔ 1947ء میں ملک کی تقسیم کے وقت بھی یہ ہی علاقہ فساد سے آزاد تھا۔ اترپردیش میں دنگوں نے نئے ریکارڈ توڑے ہیں۔ قطعی رپورٹ تک130 سے اوپر دنگے ہوچکے ہیں۔ سپا سرکار کے طاقتور وزیر اعظم خاں بھی اس معاملے میں کٹہرے میں تھے۔ ان پر لڑکی کے بھائیوں کا قتل کرانے میں شامل ملزمان کو تھانے سے چھڑانے کا الزام ہے۔ یہ رپورٹ جاری کرنے میں دیری ہوئی تو قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوگیا۔ اس لئے اترپردیش سرکار کو اس کو عام کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرنی چاہئے۔ اگر اس سچ مچ وہی نتیجہ ہے جیسے خبر آئی ہے تو دونوں بھاجپا اور سپا کو بھروسے مند وضاحت پیش کرنی چاہئے۔ اس سے توقع رہے گی کہ جن نیتاؤں کا ان دنگوں میں کردار شبہ کے گھیرے میں ہے ان پر سخت کارروائی ہوگی۔ انتظامی ملازمین پر بھی خاص توجہ دینی چاہئے۔سپا سرکار کی ساکھ داؤ پر ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں