ایسے بے حس حکام کو سزادیں ہریش راوت

ہمارے دیش میں کچھ افسروں کا کردار اتنا گر گیا ہے کہ کسی بھی ٹریجڈی کا یہ اپنا فائدہ اٹھانے کا موقعہ نکال لیتے ہیں۔ قریب دو سال پہلے اتراکھنڈ کے کیدارناتھ میں آئی تباہی خوفناک سانحات میں سے ایک تھی جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ بہت سے لوگ لاپتہ ہوگئے۔ کئی دیہات اور قصبوں کا نقشہ ہی مٹ گیا۔ریاست کی معیشت تباہ ہوگئی۔ ایسی ایک ٹریجڈی کے بعد راحت رسانی اور بازآبادکاری اور تعمیر نو کے کام کے عزم کے علاوہ سنجیدگی بھی دکھانے کی توقع کرتا ہے۔ جب2013ء میں اتراکھنڈ میں آئے تباہ کن سیلاب میں پھنسے لاکھوں لوگوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں تھا وہیں سیلاب راحت رسانی کے کاموں کی نگرانی میں لگے ریاستی حکومت کے افسران نے روزانہ ہزاروں روپے کا بسلری پانی پیاجبکہ سیلاب متاثرین دانے دانے کو محتاج تھے اور یہ افسر ہوٹل میں بیٹھ کر مٹن ، چاپ ،چکن، دودھ ،پنیر، گلاب جامن کھاتے ہوئے راحت اور بچاؤ کے کام کی نگرانی میں مصروف تھے۔آر ٹی آئی کے ذریعے ہوئے اس انکشاف کے مطابق حکام کے ہوٹل میں ٹھہرنے کی مدت 16 جون 2013ء کو باڑھ آنے سے پہلے دکھائی گئی ہے۔آدھا لیٹر دودھ کی قیمت194 روپے دکھائی گئی ہے، جبکہ بکرے کا گوشت، چکن، انڈے، گلاب جامن جیسی چیزیں بھی بازار کے دام سے بہت اونچی شرحوں پر خریدی دکھائی گئی ہیں۔ ایسی بڑی ٹریجڈی کے بعد راحت اور باز آبادکاری اور تعمیر نو کے عزم کے علاوہ حساسیت برتنے کا بھی تقاضہ ہوتا ہے لیکن تباہی کی دوسری برسی سے پہلے ایک آر ٹی آئی کے ذریعے یہ بات سامنے آئی جو چونکانے والی ہے۔ ہمارے طریقہ کار کلچر میں کرپشن نئی چیز نہیں ہے۔ سرکاری کام کے کلچر میں تو اور بھی نہیں لیکن جب سیلاب سے تباہ کاری کے درمیان پھنسے بھکت اور دور دراز علاقوں سے آئے لوگوں کو بچانے اور ان کے درد کو محسوس کرنے کی ضرورت تھی تب بھی کچھ افسر موج مستی اور بلوں کی جعلسازی بھی مصروف تھے تو اس سے صرف ان کے کرپٹ ہونے کا ہی نہیں بلکہ بے حس ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ جو رقم متاثرین کے کھانے کے لئے بھیجی گئی تھی اس سے بھی ان افسران نے اپنی دعوت کا انتظام کیا۔ اترا کھنڈ کے وزیر اعلی ہریش راوت نے پورے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ اس گھوٹالے کا انکشاف اس وقت ہوا جب ریاستی انفورمیشن کمشنر انل شرما ایک آر ٹی آئی درخواست دہندہ کی جانب سے پیش کئے گئے دستاویزوں پر سماعت کی۔ دستاویزوں سے پتہ چلا ہے کہ جب لوگوں کو اپنی جان بچانے کے لالے پڑے ہوئے تھے یہ افسر موج مستی کررہے تھے۔ چکن ، میٹ کھانے میں مصروف تھے۔ الزامات پر نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلی نے چیف سکریٹری سے کہا ہے کہ وہ معاملے کی جانچ کریں اور متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کریں۔ حکام نے آدھے لیٹر دودھ کی قیمت 194 روپے دکھائی اور اس ہوٹل میں جہاں وہ رکے تھے کمرے کا کرایہ 7 ہزار روپے یومیہ تھا اور ان افسران نے مٹن ، چکن اور گلاب جامن جیسے ذائقے دار کھانوں کا لطف اٹھایا۔ یہ ایک بیحد سنگین معاملہ ہے۔ کرپٹ افسران کو سزا دے کر ہی ریاستی حکومت اپنی ساکھ پر لگے داغ سے نجات پا سکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!