پاکستان مسئلوں کے پرامن حل میں یقین نہیں رکھتا

ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشیدگی بڑھانے پر تلا ہوا ہے۔ تازہ مثال ہے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحل شریف کا بیان کہ کشمیر (بھارت کے 1947 میں )ہوئی تقسیم کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ بدھوار کو جنرل راحل شریف نے ہندوستان کا نام لئے بغیر کہا کچھ لوگ پاکستان میں بدامنی پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں پاکستان نے پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں 8 جون کو گلگت،بلتستان میں چناؤ کروانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ بھارت کی صورتحال سے سب واقف ہیں گلگت اور بلتستان سمیت پورا جموں و کشمیر ریاست بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے پھر بھی گلگت ۔ بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورمنٹ آرڈر کے ذریعے وہاں ہونے والا چناؤ پاکستان کے ذریعے خطے میں زبردستی قبضے کو صحیح ٹھہرانے کی کوشش ہے۔ گلگت اور بلتستان پر بھارت کا اعتراض مناسب ہے اور ڈپلومیسی کی بھی ضرورت ہے ۔ یہاں پاکستان کا ناجائز کنٹرول ہے اقوام متحدہ بھی یہی مانتا ہے لیکن پاکستان ایسے قدم اٹھا رہا ہے جس سے بھارت کو ڈپلومیٹک چنوتی دے اور اقوام متحدہ کو ٹھینگا دکھائے۔ اہم یہ نہیں کہ کیا بھارت پاکستان پر کوئی کارروائی کرے گا؟ گلگت ۔ بلتستان کو پہلے پاکستان میں ناردرن ایریا کہا جاتا تھا۔ اس کی سرحدیں پاکستان، چین،افغانستان سے لگتی ہیں۔ یہاں پہلی بار 2009ء میں چناؤ ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ بھی اسے منفی خطہ مانتا ہے۔ پاکستان اسے الگ انتظامی ریاست بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ جنرل راحل شریف کے بیان کو وزیر خارجہ سشما سوراج کے بیان کا رد عمل بھی مانا جاسکتا ہے۔ اسے ایتوار کو وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان سے بات چیت کی شرط رکھی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ بھارت ۔ پاکستان کے ساتھ ہر تنازعے کوپر امن بات چیت سے حل کرنا چاہتا ہے، لیکن بات چیت سیدھے بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونی چاہئے۔ یعنی اس میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بات چیت سے پہلے تشدد اور دہشت گردی سے دور رہتے ہوئے پاکستان کو معقول ماحول بنانا ہوگا۔ اگر پاکستان ایمانداری سے بہتر رشتے بنانا چاہتا ہوتا تو وہ اس پر مثبت رد عمل ظاہر کرتا۔مگر وہاں سے جواب فوج کے سربراہ کے ذریعے آیا، جس میں وہی گھسا پٹا جملہ دوہرایا گیا جو اصل میں بھارت پاکستان کے درمیان ماضی گذشتہ میں ہوئی چار اشو اور لگاتارجاری کشیدگی رشتوں کی جڑ میں رہا ہے۔بھارت اور پاکستان کا جب بٹوارہ ہوا تھا تو جموں وکشمیر کے مہاراج نے بھارت میں ملنے کا فیصلہ کیا تھا اس کے بعد جموں و کشمیر کی عوام نے جمہوری عمل کا حصہ بن کر مسلسل ہندوستانی آئین میں اپنی وفاداری جتائی تھی۔ تو پھر پاکستان کو کیوں لگتا ہے کشمیر اس کا حصہ ہے۔ یہی نہیں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کا ایک حصہ اس نے چین کو عطیہ میں دے دیا ہے۔ آج پاکستان اور چین پکے دوست بنے ہوئے ہیں۔پاکستان پرامن طور پر مسئلوں کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اور وقتاً فوقتاً الٹے سیدھے بیان دے کر کشیدگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟