پہلے ہی سے پریشان کسان پر کمزور مانسون کی مار

خراب موسم کی پیشگوئی نے کسانوں کو ایک بار پھر پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ پچھلے مانسون کی بے رخی اور ربیع موسم میں بے موسم کی بارش کی مار کے بعد اب خراب مانسون کی خبر نے کسانوں کی مشکلیں اور بڑھا دی ہیں۔ اپنی آمد کی مقررہ تاریخ سے پانچ دن لیٹ ہونے کے بعد اب مانسون کے کمزور رہنے کا بھی اندیشہ ہے۔ محکمہ موسمیات نے ترمیم شدہ پہلے سے پیشگوئی میں عام سے کم اور قلیل مدت اوسط کی 88 فیصد بارش ہونے کی پیشگوئی کی ہے۔ کمزور مانسون سے دیش کے کچھ حصوں میں خوشک سالی ہو سکتی ہے۔ بے موسم بارش کی مار جھیل چکے ذرعی سیکٹر کا بحران اس برس مانسون کے کمزور رہنے کے اندازے نے اور بڑھا دیا ہے۔ عموماً پہلی جون کو مانسون کیرل کے ساحل سے ٹکراتا ہے اور جون کے آخر تک دیش کے بڑے حصوں میں اس کی آمد ہوجاتی ہے۔ اس مرتبہ اس کے آنے میں تاخیر تو ہو ہی چکی ہے محکمہ موسمیات نے اس برس مانسون کے اپنے پہلے کے 93 فیصدی بارش کے اندازے کو بدلتے ہوئے اب صرف 88 فیصدی بارش کا ترمیمی اندازہ جاری کیا ہے جس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ذرعی سیکٹر کے سامنے کس طرح کی چنوتیاں آنے والی ہیں۔ محکمہ موسمیات نے یہ بھی صاف کردیا ہے کہ بحر ہند میں النینو مضبوط ہو رہا ہے۔ اس سے دیش کے کئی علاقوں میں خوشک سالی کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اپریل میں محکمے نے جو پیشگوئی جاری کی تھی اس میں النینو پیدا ہونے کا امکان محض50 فیصدی مانا گیا تھا اب وہ 90 فیصدی ہے۔ النینو کے سبب پرشانت مہا ساگر میں جس جگہ سے مانسونی ہوائیں چلتی ہیں وہاں سمندر کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اس سے ہوائیں کمزور پڑ جاتی ہیں اوربارش سے پیداوار گھٹے گی۔ اس سے کھانے پینے کی چیزیں مہنگے ہونے کا امکان ہے۔ باندھو میں پانی گھٹے گا جس سے بجلی پیداوار پر بھی اثر پڑے گا اور زمینی پانی کی سطح زیادہ گھٹے گی اور زمین میں پانی جمع نہیں ہو پائے گا۔ مرکزی سرکار کمزور مانسون سے نمٹنے کیلئے 580 ضلعوں میں ہنگامی اسکیموں کے ساتھ تیار ہے۔وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ نے یہ جانکاردیتے ہوئے بتایا کہ سرکار کے پاس کسی بھی کمی سے نمٹنے کے لئے گیہوں ،چاول کا ٹھیک ٹھاک اسٹاک ہے۔ سنگھ نے کہا کہ ہم نے اپریل سے ہی ہنگامی پلان بنانا شروع کردیا تھا۔ دہلی ، اترپردیش، ہریانہ اور راجستھان جیسی ریاستوں میں کسانوں پردوہری مار پڑے گی۔ بے موسم بارش اور ژالہ باری کے سبب ان کی ربیع کی فصل کو پہلے ہی کافی نقصان ہو چکا ہے اور اب بارش کم ہوئی تو اس کا اثر دھان، کپاس، گنا اور سویا بین جیسی فصلوں کی پیداوار پر پڑے گا۔ ذراعت سیکٹر کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس پر دیش کی دو تہائی آبادی منحصر ہے۔لہٰذا ذراعت پر کسی بھی طرح کے بحران کا اثر چوطرفہ ہوتا ہے۔ پہلے سے ہی دبے ہوئے کسانوں کو اب دوہری مار پڑسکتی ہے۔ بھگوان سے پرارتھنا کی جاتی ہے کہ محکمہ موسیات کی پیشگوئی غلط ثابت ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟