بھاجپا اور کانگریس پر کیجریوال کی جھاڑو پھر گئی!

دہلی کا یہ انوکھا اسمبلی چناؤ ہماری جمہوری تاریخ میں اپنی الگ جگہ بنائے گا۔عام آدمی پارٹی اور اس کے کنوینر اروند کیجریوال کو ہم اس شاندار کامیابی پر مبارکباد دینا چاہتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے تو ایگزٹ پول کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔ اکیلے اروند کیجریوال نے پردھان منتری ،مرکزی وزرا ، ممبران پارلیمنٹ اور دوسری ریاستوں کے وزیر اعلی کو بھی پچھاڑ دیا ہے۔ وہ ایک ’جوائنٹ کلر‘ بن کر ابھرے ہیں۔ آج اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی یہ درگتی ہوئی ہے تو اس کیلئے میں دو افراد کو ذمہ دار مانتا ہوں۔ پہلے وزیر اعظم ہیں دوسرے بھاجپا کے پردھان امت شاہ۔ ایک کے بعد ایک غلطیاں انہوں نے کی ہیں۔ جب لوک سبھا چناؤ کے نتیجے آئے تو نریندر مودی اور بھاجپا کی مقبولیت شباب پر تھی کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ لوک سبھا چناؤ کے فوراً بعد دہلی کا چناؤ کروا لیا جانا چاہئے تھا لیکن جوڑ توڑ سے حکومت بنانے کے چکر میں ایک سال گزار دیا اور مودی لہر ختم ہوتی چلی گئی۔ پھر ان دونوں بڑے تجربہ کاروں نے سوچا کہ دہلی میں لوکل لیڈر شپ کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔ ایک ایک کرکے مقامی نیتاؤں کو لائن حاضر کردیا۔ پہلے وجے گوئل کو ٹھکانے لگایا، اس کے بعد ہرش وردھن کو جن کی قیادت میں پارٹی پچھلی بار32 سیٹیں لے کر آئی تھی ان کو ممبر اسمبلی سے ہٹا کر لوک سبھا چناؤ لڑوادیا۔ یہ صاف اشارہ تھا کہ ہرش وردھن اب دہلی کی سیاست نہیں کریں گے۔ پھر آیا نمبر ستیش اپادھیائے کا، پروفیسر جگدیش مکھی کو بھی سین سے ہٹا دیا گیا۔ موی۔ امت شاہ اپنے سرکردہ لیڈروں کو ہٹانے میں لگے تھے اور ادھر اروند کیجریوال جم کر کام کرتے رہے۔ انہوں نے اس دوران گھر گھر جاکر جنتا سے 49 دنوں میں بھاگنے پر معافی مانگی، عوام نے نہ صرف انہیں معاف کیا بلکہ ایک اور موقعہ دینے کا بھی فیصلہ کرلیا۔ پارٹی میں تقسیم تو پہلے سے ہی ہوگئی تھی رہی سہی کثر کیرن بیدی کو تھونپنے سے پوری ہوگئی۔ بیشک کرن بیدی خود ایک اچھی خاتون ہیں لیکن ان کے آنے سے پارٹی کی تقسیم ہوگئی۔ بھاجپا کو کانگریس کے صاف ہونے کا نقصان ہوا ہے جو ووٹ بینک کانگریس کا تھا وہ سب شفٹ ہوکر عام آدمی پارٹی کو چلا گیا۔خاص کر دہلی کے اقلیتی ووٹر پوری طرح سے ’آپ‘ پارٹی کے ساتھ تھے ۔ وہ ’آپ‘ کے اتنے حمایتی تھے اور ان میں یہ احساس پیدا ہوگیا تھا کہ بھاجپا کو ہرانے کیلئے ’آپ‘ کو حمایت دینا ضروری ہے۔ انہوں نے پوری طرح سے کیجریوال کی پارٹی کو حمایت دے دی ہے۔ عام آدمی پارٹی کو سبھی طبقوں کی حمایت ملی ہے غریب ، امیر، پڑھے لکھے ،انپڑھ سبھی نے کھل کر ’آپ‘ کو حمایت دی ہے۔ بھاجپا لیڈر شپ کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ ’آپ‘ نے پچھلے14 مہینے میں دہلی کے شہریوں کے مسائل کو سلجھانے میں کیا قدم اٹھائے؟ چاہے معاملہ بجلی کا ہو، پانی کا ہو، خاتون کی حفاظت کا ہو، ناجائز کالونیوں کا رہا ہو، سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا تھا جس پر صحیح طریقے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ گھٹنا تو دور رہا بجلی کے بل بڑھ گئے۔ عام آدمی کی جگہ صنعت کاروں کی زیادہ سیوا کرنے کا تاثر عام جنتا میں چلا گیا۔ مودی جی براک براک کرتے رہے اور بیرونی ممالک میں اپنی دھوم مچواتے رہے یہ نہیں دیکھا کہ گھر میں کیا ہورہا ہے۔ امت شاہ جو اپنے آپ کو سیاست کا چانکیہ مانتے ہیں اس چناؤ میں بری طرح بے نقاب ہوئے ہیں۔ ان کی بوتھ مینجمنٹ سے لیکرسارے داؤ الٹے پڑ گئے۔ چناؤ صرف اور صرف دہلی میں تھا لیکن نگاہیں پورے دیش کی لگی ہوئیں تھیں۔ دیش دنیا کے بیدار لوگ دہلی چناؤ کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا واقعی وزیر اعظم نریندر مودی کا ناقابل روک یگیہ کا گھوڑا ارندو کیجریوال جیسا سیاست کا نیا نویلا کھلاڑی روکنے میں کامیاب ہوجائے گا۔یا پھر یہ گھوڑا آگے بڑھتا ہی جائے گا۔ اروند کیجریوال نے نہ صرف گھوڑا پکڑ لیا بلکہ نریندر مودی کے یگیہ کی دوڑ پر بھی روک لگا دی ہے۔ اروندکیجریوال سے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اپنی پرانی غلطیوں سے سبق لیں گے اور ان سے سبق لیکر دہلی میں ایک اچھی ، صاف ستھری سرکار دینے میں کامیاب ہوں گے۔ جنتا کو ان سے بہت امیدیں ہیں۔ ان پرانہیں کھرا اترنے پڑے گا۔ انہیں اور ان کی پارٹی کو اس شاندار جیت پر مبارکباد۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟