راہل گاندھی کی لیڈر شپ پر ایک بار پھر سوالیہ نشان؟

یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ 100 سال سے زیادہ پرانی پارٹی کانگریس سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ امید کی جاتی تھی کہ عام چناؤ اور چار اسمبلی چناؤ میں ہار کے بعد شاید کانگریس اپنی غلطیوں کا محاسبہ کرکے اپنی پوزیشن بہتر کرے گی۔ اگر ایگزٹ پول کو صحیح مانا جائے تو دہلی اسمبلی چناؤ میں بھی کانگریس کا پتتا صاف ہوگیا ہے۔ کانگریس کے اندر سینئر لیڈر نائب پردھان راہل گاندھی اور ان کے مشیر کار منڈلی کوپچا نہیں پارہے ہیں۔ پچھلے دنوں جینتی نٹراجن کے لیٹر بم نے پارٹی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈروں کا کہنا ہے کہ تنظیم میں ردوبدل ہونے سے پہلے ہی جینتی نٹراجن جیسے وفادار بغاوت کرسکتے ہیں۔ عہدیداران کی مانیں تو اگلے دو مہینے میں ہائی کمان کے خلاف اور چہرے سامنے آئیں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں ہائی کمان لچر کارکردگی کے چلتے دوبارہ تنظیم میں جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن یہ لوگ تنظیم میں عہدے کا لالچ رکھتے ہیں۔ پارٹی کے اندر ایسے کئی بڑے نیتا ہیں جو نائب پردھان راہل گاندھی کو پسند نہیں کررہے ہیں۔ پارٹی کے کئی سرکردہ لیڈر راہل گاندھی کو نشانہ بنا کر پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ پہلے چودھری ویریندر سنگھ ، پھر جی۔ کے۔ واسن، جگمیت برار، کرشنا تیرتھ، کارلی چدمبرم، جینتی نٹراجن جیسے کئی لیڈر کانگریس سے کنارہ کرچکے ہیں۔ پارٹی کے اندر ایسے کئی لیڈر ہیں جو صحیح موقعے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ جلد ہی کنارہ کرسکتے ہیں۔ ان لیڈروں میں سابق وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری ور وزیر داخلہ و وزیر مالیات پی چدمبرم ترجمان رہے راشد علوی، پنجاب کے سابق وزیر اعلی کیپٹن امرندر سنگھ سمیت درجنوں بڑے لیڈر ہیں جو خود کو بڑے بے عزت محسوس کررہے ہیں۔ دہلی اسمبلی چناؤ نتیجے آنے پر یہ لیڈر کھل کر سامنے میدان میں آسکتے ہیں۔ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جب سے راہل گاندھی نے پارٹی کی ذمہ داری سنبھالی ہے، تبھی سے پارٹی ایک کے بعد ایک چناؤ ہارتی جارہی ہے۔ پہلے اترپردیش اسمبلی چناؤ میں راہل گاندھی کی لیڈر شپ میں پارٹی کو جھٹکا لگا، پھر لوک سبھا چناؤ میں ایسی درگتی ہوئی کہ پارٹی کو نیتا اپوزیشن کے لائق ایم پی بھی نہیں ملے، اس کے بعدمہاراشٹر،ہریانہ، جموں و کشمیر، جھارکھنڈ اور اب دہلی اسمبلی چناؤ میں بھی کانگریس کو کراری ہار کار سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سے پارٹی اور جنتا و کانگریس ورکروں میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ راہل کی لیڈر شپ میں پارٹی جیت نہیں سکتی۔ کانگریس کی جہاں راہل کمزوری ہیں وہیں تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس کو صرف نہرو گاندھی خاندان لیڈر شپ دے سکتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے ایک بار پھر پرینکا واڈرا کو آگے لانے کی مانگ تیزی سے اٹھ سکتی ہے۔ کانگریس ایک ایسی دلدل میں پھنستی جارہی ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ دور اندیشی کی بات ہے کہ اتنی پرانی پارٹی کا یہ حشر ہوافسوس اور تشویش کا باعث ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!