بہار کا عجیب وغریب سیاسی بحران

بہار میں ان دنوں ایک عجیب وغریب سیاسی بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ بہار میں حکمراں جنتا دل (یو) میں لیڈر شپ کی تبدیلی کا فیصلہ ہوا ۔ کل 111میں 97 ممبران اسمبلی کی موجودگی میں موجودہ وزیراعلی جتین رام مانجھی کی جگہ پر نتیش کمار کو اتفاق رائے سے اسمبلی پارٹی کا لیڈر چن لیا گیا ہے۔ نمبروں کے حساب جتین رام مانجھی کے پاس کل 14ممبران کی حمایت بچی ہیں لہذا جب اتنی زبردست ممبران کی اکثریت نتیش کے ساتھ ہے تو انہیں ہٹ جانا چاہئے تھا۔ لیکن انہوں نے اسمبلی پارٹی کی اس میٹنگ کو ہی ناجائز مانتے ہوئے پارٹی کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ ان کی دلیل تھی کہ اسمبلی پارٹی کی میٹنگ صرف وزیراعلی ہی بلا سکتا ہے۔ ادھر پٹنہ ہائی کورٹ نے ان کے اس دعوے کر صحیح مانتے ہوئے نتیش کو جے ڈی یو اسمبلی پاری کا لیڈر چنے جانے کے فیصلے پر روک لگادی ہے۔عدالت کے فیصلے کے بعد بہار میں سیاسی موڑ بحران ایک نئے موڑ میں داخل ہوگیا ہے۔ ہائی کورٹ کاکہنا ہے کہ نتیش کمار کو جتنا دل(یو) کے اسمبلی پارٹی کا لیڈر تسلیم کرنے کا اسمبلی اسپیکر کافیصلہ غلط ہے کیونکہ عام طور سے ایک نیا وزیراعلی چننے جیسا ہے دوسری طرف وزیراعلی جتین رام مانجھی استعفی نہ دینے پر اڑے ہوئے ہیں۔ اور وزیراعلی کے ساتھ اکثریت ہے یا نہیں اس کافیصلہ اسمبلی میں ہوگا۔ اس دلیل پر وہ اڑے ہوئے ہیں۔ حالات جس انتہا پر پہنچے ہیں وہاں اب سب کچھ گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی کے فیصلے پر منحصر ہے مانجھی کہہ چکے ہیں وہ19 یا20 فروری اعتماد کاووٹ حاصل کرنے امتحان کے لئے تیار ہے اب وہ اکثریت ثابت کردیں گے تو پھر سے وزیراعلی کی کرسی پر بیٹھنے کو تیار نتیش کمار شاید کچھ زیادہ ہی جلدی میں ہے۔ پٹنہ ہائی کور ٹ کافیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب وہ دہلی میں طاقت کامظاہرہ کرنے کے لئے راشٹرپتی بھون گئے تھے اور وہاں صدر کے سامنے اپنے حمایتی ممبران کی پریڈ کروا رہے تھے۔ نتیش کمار کے پاس درکار حمایتیوں کی حمایت ہوسکتی ہے لیکن یہ کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے وہ ممبران کی پریڈ صدر کے سامنے کرائے۔کسی لیڈر کے پاس سرکار بنانے لائق حمایت ہے یا نہیں اس کا فیصلے کا تعین اسمبلی میں ہی ہوناچاہئے نہ کہ راشٹربھون میں نتیش کمار اس نئی روایت کی کوشش کو صحیح نہیں مانا جاسکتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ گورنر کے فیصلے کا انتظار کرتے اب گورنر کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ پارٹی لائنس سے اوپر اٹھ کر فیصلے لیں۔ ان کے فیصلے میں کچھ ایسا نہیں دکھائی دیناچاہئے کہ آئین طریقے سے وہ کام نہیں کررہے ہیں۔ بنیادی اشو یہ ہے کہ اگروزیراعلی کے ساتھ اکثریت ہونے پر شبہ ہو تو جلد سے جلد اسمبلی میں فیصلہ ہو کیونکہ جتنا وقت لگے گا ممبران اسمبلی کی خرید وفروخت اور سیاسی اتھل پتھل کا موقعہ ملے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟