سال بھر پہلے جس دن استعفیٰ دیا اسی دن حلف لیں گے کیجریوال

دہلی اسمبلی چناؤ میں کیجریوال کی آندھی کا بھاجپا صحیح سے تجزیہ نہیں کرپائی۔ کہنے کو تو بھاجپائی دبی زبان میں کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں بھاجپا ہاری نہیں ’آپ‘ جیتی ہے۔وہ کہہ رہے ہیں کہ اس چناؤ میں بھی ہمیں32.2 فیصد ووٹ ملے ہیں جو پچھلی بار سے محض ایک فیصد کم ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو پچھلے چناؤ کے مقابلے 2015 میں 24.9 فیصد مزید ملے ہیں۔ یہ ووٹ کانگریس اور دیگر پارٹیوں کا ہے۔ کانگریس کو 9.7فیصد کم ووٹ ملے۔ کانگریس اور دیگر پارٹیوں و آزاد وغیرہ کا پورا ووٹ کیجریوال کو مل گیا اور یہ ہی کہیں بٹا بھی نہیں اسی وجہ سے ’آپ‘ کو67 سیٹیں ملیں بھاجپا کو محض3 سیٹوں پر تسلی کرنی پڑ رہی ہے۔ چناؤ کمپین کے معاملے میں بھی عام آدمی پارٹی نے دیگر پارٹیوں کو پیچھے چھوڑدیا۔ دہلی کے چیف الیکٹرول آفیسر کے دفتر سے جاری اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ اس بار اسمبلی چناؤ میں عام آدمی پارٹی نے صرف الیکٹرانک میڈیا ،ٹی وی ریڈیو اور (سوشل سائٹ) کے ذریعے سے کمپین کے لئے 22 کروڑ سے زیادہ روپے خرچ کئے جبکہ بھاجپا نے قریب12 کروڑ روپے خرچ کئے اس میں پرنٹ میڈیا، ہورڈنکس اور ریلیوں کا خرچہ شامل نہیں۔ ایک سینئر افسر کے مطابق چناؤ کے دوران الیکٹرونک میڈیا سے کمپین کیلئے تیار میٹر کا پہلے چناؤ کمیشن نے میڈیا سرٹیفکیشن اینڈ مونیٹرنگ کمیٹی سے منظوری لینی ہوتی ہے۔ حالانکہ اس بار مسلم ووٹروں نے کھل کر عام آدمی پارٹی کو حمایت دی ہے لیکن 2013 اسمبلی چناؤ کے مقابلے 2015 میں مسلم ممبر اسمبلی کی تعداد گھٹ گئی ہے۔ اس بار کل 4 ممبران اسمبلی جیت کر آئے ہیں جبکہ پچھلے چناؤ میں یہ تعداد 5 تھی۔ عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب سبھی 4 ایم ایل اے پہلی بار اسمبلی میں اینٹری کریں گے۔2013 میں کانگریس نے 8 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جن میں4 مسلم ممبر اسمبلی تھے۔ تب مٹیا محل سے جیتنے والے شعیب اقبال اس مرتبہ عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں چت ہوگئے۔ چودھری متین احمد، حسن احمد اور ہارون یوسف جیسے نامور لیڈر ہار گئے۔ اس سال کل 68 مسلم امیدوار میدان میں تھے جن میں صرف4 ہی جیت پائے۔سب سے زیادہ مسلم امیدوار کانگریس نے 6 اتارے تھے اور یہ سبھی ہار گئے۔ اروند کیجریوال ’آپ‘ اسمبلی پارٹی کے نیتا چنے گئے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے سبھی ممبران کو جنتا سے رابطہ قائم کرنے اور غرور نہ کرنے کی نصیحت دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کیجریوال14 فروری کو رام لیلا میدان میں وزیر اعلی کے عہدے کا حلف لے سکتے ہیں۔ پچھلے سال 14 فروری کو ہی انہوں نے اپنی پوری کیبنٹ سے استعفیٰ دیا تھا۔ حالانکہ پہلے ان کی حلف برداری 15 فروری کو ہونی تھی لیکن اس دن ورلڈ کپ میں بھارت ۔پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کا مقابلہ ہے اس لئے اس کو دیکھنے کی وجہ سے 14 فروری کو حلف لینے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟