اور اب ایک اور سوئس بینک کے کھاتوں کی فہرست آئی

خفیہ کھاتوں کے لئے مشہور بینک ایچ ایس بی سی کی سوئس برانچ میں مشتبہ کھاتے داروں کی ایک اور فہرست سامنے آگئی ہے۔ ایک انگریزی رونامہ اخبار نے ایک بین الاقوامی تفتیشی نیٹ ورک کے تعاون سے یہ پتہ لگایا ہے کہ اس بینک میں 1195 ہندوستانیوں کی کھاتے ہیں جس میں قریب4 ارب ڈالر یعنی 25 ہزار کروڑ روپے جمع ہیں۔ ان کھاتوں میں دیش کے بڑے صنعتکاروں کے علاوہ سیاسی ہستیاں، ہیرا تاجر اور این آر آئی شامل ہیں۔ بینک کی مانیں تو یہ فہرست چرائی گئی تفصیل کا ایک حصہ ہے اور کھاتے داروں میں سے زیادہ تر کا کہنا ہے کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ کچھ ایسے بھی ہے جنہوں نے اس سے صاف انکار کیا ہے کہ ان کا ایچ ایس بی سی یا کسی دوسرے سوئس بینک میں کوئی کھاتہ نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے بغیر کسی پختہ ثبوت کے گہری جانچ کے بعد ہی دعوے سے کھاتوں کے بارے میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔ مشکل یہ بھی ہے کہ ابھی یہ دعوے سے نہیں کہا جاسکتا کہ کونسا معاملہ محض یکس چوری کا ہے اور کونسا ناجائز طریقے سے کمائی دولت کا ہے؟ ان میں سے کئی کا کہنا ہے یہ اکاؤنٹ قانون کے تحت کھولے گئے ہیں اور ان میں جمع پیسہ بلیک منی کے زمرے میں نہیں آتا۔ بڑے صنعت کاروں مکیش امبانی، انل امبانی اور جیٹ ایئر ویز کے چیئرمین نریش گوئل نے صفائی دی ہے کہ ان کا بینک میں کسی طرح کے ناجائز کھاتے ہونے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ گوئل نے اخبار نویسوں سے کہا کہ کسی طرح کی کالی کمائی نہیں ہے اور کچھ بھی چھپانا نہیں ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ میں سبھی قاعدوں قواعد کی تعمیل کررہا ہوں۔ 
ریلائنس انڈسٹریز کے ایک ترجمان نے کہا کہ ریلائنس انڈسٹریز اور نہ ہی مکیش امبانی کا دنیا میں کسی بھی جگہ غیر قانونی کھاتہ نہیں ہے۔اسی طرح انل امبانی کے ایک ترجمان نے کہا کہ مسٹر امبانی کا بیرونی ممالک میں ایچ ایس بی سی بینک میں کوئی کھاتہ نہیں ہے۔ مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی نارائن رانے نے بھی کہا کہ سوئس بینک میں ان کا یا ان کے خاندان کے کسی بھی افراد کے کھاتہ ہونے کی بات کو مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ماضی گذشتہ میں میرا نام آیا ہے ،اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔سرکار چاہے یوپی اے کی ہو یا این ڈی اے کی، جب جب یہ اشو اٹھا ہے وہ یا تو معاملے کو ٹالنے کی کوشش کرتی ہے یا پھر زور زور سے بولنے لگتی ہے کہ وہ اتنے لوگوں کے نام اجاگر کرے گی اور ضروری کارروائی کرے گی لیکن حال ہی میں سپریم کورٹ نے صاف کہا تھا ان کی دلچسپی بیرونی ملک میں کالی کمائی واپس لانے میں ہے۔ لوگوں کے نام جاننے میں نہیں۔ اس معاملے میں موجودہ حکومت بھی الجھن میں دکھائی پڑتی ہے۔ بی جے پی نے کالی کمائی واپس لانے کا وعدہ تو کیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اسے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ اچھا ہوگا سرکار ایک وائٹ پیپر کے ذریعے لوگوں اور عدالتوں کے سامنے پوزیشن صاف کرے اور اس مسئلے پر اپنی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرے۔ تکنیکی ٹال مٹول اور بے دلیلی سے تو سرکار کی نہ صرف ساکھ خراب ہورہی ہے بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟