یوپی اے سرکار کے مقرر گورنروں کو ہٹانے پرمچا گھماسان!
مرکز میں تبدیلی اقتدار کے بعد دیش بھر کی ریاستوں کے راج بھونوں میں بیٹھے گورنروں کی تبدیلی ہونا فطری ہی ہے۔ مرکزی حکومت نے سابقہ یوپی اے سرکار کے ذریعے مقرر کچھ گورنروں کو بدلنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ جن گورنروں کی میعاداس سال یا اگلے برس جنوری میں ختم ہورہی ہے ان کے لئے انتظار کیا جاسکتا ہے مگر اتنا طے ہے کہ بڑی ریاستوں میں یا ان ریاستوں میں جہاں اسی سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں وہاں کے گورنروں کو بدلا جائے گا۔ جن گورنروں کو مودی سرکار بدلنا چاہتی ہے ان میں خاص کر ہیں شیلا دیکشت(کیرل) ڈی وائی پاٹل (بہار) وی وی وانچو (گووا) سید احمد (جھارکھنڈ ) رام نریش یادو (مدھیہ پردیش) ایس سی جمیر(اڑیسہ)کے روسمیا (تملناڈو) عزیز قریشی (اترکھنڈ) دویندر کنور (تریپورہ) وغیرہ وغیرہ۔ غور طلب ہے کہ ہوم سکریٹری کے ذریعے 7 گورنروں کو استعفیٰ دینے کا سندیش بھیجا گیا۔ اترپردیش کے گورنر بی ۔ایل۔ جوشی نے تو مرکزی حکومت کے ارادے کو بھانپ کر استعفیٰ دے دیا۔ ممکن ہے دیگر گورنر بھی ایسا کریں۔ گورنروں کو بدلنے کا معاملہ بہت ہی حساس مانا جاتا رہا ہے۔ مرکزی حکومتیں انہیں اپنے نمائندے کے طور پر وہاں رکھتی ہیں اس لئے ہر جگہ اپنے وفادارشخص کو بٹھانا ضروری سمجھتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے گورنر کا عہدہ سیاسی لیڈروں کو ایک ایڈجسٹ کرنے کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ مرکزی سرکار کے گورنروں سے استعفے پر کانگریس مشکل میں پھنس گئی ہے۔ پارٹی چاہ کر بھی مودی سرکار کے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کرپارہی ہے کیونکہ 10 سال پہلے2004ء یوپی اے I سرکار بننے کے بعد کانگریس نے این ڈی اے کے عہد میں مقرر ہوئے گورنروں کوعہدے سے ہٹایا تھا۔ پارٹی آئینی عہدے کا حوالہ دیتے ہوئے گورنروں کو استعفیٰ دینے پر سیاست نہ کرنے کی وکالت کررہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جن گورنروں کو ہٹائے جانے پر ناراضگی جتاتے ہوئے سپریم کورٹ کے جس حکم کا حوالہ دے رہی ہے وہ حکم بھی یوپی اے سرکار کے گورنروں کو ہٹانے کے معاملے میں آیا تھا۔ کانگریس جنرل سکریٹری اجے ماکن نے کہا کہ پارٹی اس معاملے کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتی۔ ہم چاہتے ہیں کہ سرکار آئینی تقاضوں کی تعمیل کرے۔ 2010ء میں آئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام تو 2004 ء میں اقتدار میں آتے ہی یوپی اے سرکار نے بھاجپا حکومت کے دور میں بنائے گئے چار گورنروں کو ایک دم ہٹا دیا تھا۔اس وقت کے وزیر داخلہ اور موجودہ پنجاب کے گورنر یہ کہنے پر بھی نہیں چوکے تھے کہ وہ گورنروں سنگھ کی آئیڈیا لوجی والے ہیں۔ گورنروں میں اترپردیش کے وشنو کانت شاستری، گوا کے کیدار ناتھ ساہنی، گجرات کے کیلاش پتی مشرا اور ہریانہ کے بابو پرمانند شامل تھے۔اس قدم کی مخالفت ہوئی اور معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تھا۔ عدالت نے مئی2010ء میں دئے اپنے فیصلے میں کہا کہ گورنر کو ہٹانے کے لئے سرکار کے پاس واضح دلیل ہونی چاہئے۔ عدالت نے یہ بھی جوڑا کہ گورنر کو پہلے ثابت کرنا ہوگا کہ اسے بد نیتی کے طریقے سے ہٹایا گیا ہے۔مگر یہ ثابت کرنا مشکل ہے۔ بدقسمتی دیکھئے کہ 2004ء میں ہٹائے گئے گورنروں کے مرکزی سرکارکے فیصلے کو چنوتی دینے والے بی جے پی کے کچھ ایم پی رہے وی پی سنگھل نے سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کیا تھا۔ اس پر2010ء میں فیصلہ آیا۔ کانگریس سے یہ ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ عوام کے ذریعے سرے سے مسترد کی گئی شیلا دیکشت کو چناؤ ہارنے کے 10 دن کے اندر کیرل کا گورنر مقرر کرکے اس نے کیا اشارہ دینا چاہا تھا؟ آئین کی دفعہ156.1 میں گورنروں کو ہٹانے کی کوئی خانہ پوری نہیں رکھی گئی۔ اگر مرکزی سرکار کیبنٹ کا نوٹ لاکر یہ کہہ دے کہ وہ گورنر میں اعتماد کھو چکی ہے تو صدر کے پاس اسے منظوری دینے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہوگا۔ یوپی کے گورنر بی ایل جوشی نے منگل کو استعفیٰ دیا مگر کچھ گورنر اب بھی اڑے ہوئے ہیں۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تحریر میں ہٹنے کو کہا جائے تب سوچیں گے۔ ایسے میں گورنروں کا تبادلہ کرنے کا بھی مرکز کے پاس حق ہے۔ بعد میں انہیں کوئی بھی سبب بتا کر ہٹایا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ طے کہ تقریباً ڈیڑھ درجن نئے گورنر مقرر ہوں گے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں