کیدار وادی میں قدرتی آفت کے زخم ابھی ہرے ہیں،شردھالو لاچار!

زندگی کی تکلیفوں سے جدوجہد کرتی کیدار وادی پچھلے سال 16-17 جون کی آسمانی آفت آنے کا ایک سال گزر جانے کے بعد بھی برسات ہونے سے گھبرا اٹھتی ہے۔ کیدار وادی کے لئے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ یہ بارش کی بوندیں زندگی دینے والی ہیں یا موت کی آہٹ۔وجہ کیدار وادی کے لوگوں اور شردھالوؤں کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ پہاڑوں میں محفوظ ہیں۔ کیدار وادی اور اتراکھنڈ کے دیگر حصوں میں آسمانی آفت سے ہوئی تباہی کو ایک سال گزر چکا ہے مگر اس ٹریجڈی کے زخم ابھی بھی ہرے دکھائی پڑتے ہیں۔ قدرت کے قہر سے تباہ ہوئے دیہات میں نہ تو ابھی تک زندگی پٹری پر لوٹ پائی ہے اور نہ ہی تباہ حال سڑکیں ، پل، اسکول و ہسپتال پوری طرح سے ٹھیک ہوسکے ۔ اس ٹریجڈی میں مرے لوگوں کے ورثاء اور رشتے داروں کو فوری راحت بھلے ہی مل گئی ہو مگر قدرتی آفت کی مار سے بے گھر ہوئے ہزاروں کنبوں کو ایک سال بعد بھی نئی چھت نصیب نہیں ہو پائی۔ چار دھام یاترا شروع کرنے کے لئے مسلسل ہاتھ پیر مارتی رہی صوبے کی حکومت نے اب تک ان 337 دیہات کی خبرگیری بھی کرنا مناسب نہیں سمجھا جو خطرے کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ 16-17 جون 2013ء کی قدرتی آفت میں بے گھر ہوئے قریب ڈھائی ہزار کنبوں کو ایک سال بعد بھی نئی چھت مہیا نہیں ہو پائی ہے۔ قدرتی آفت سے نمٹنے کے وعدے تو بہت ہوئے لیکن یہ زمینی طور پر کھرے نہیں اترے۔ خطرے سے پہلے وارننگ کی مشینری قائم نہیں ہوسکی۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر گذشتہ سال جیسی آفت پھر آئی تو پھر پہلے جیسا تباہی کا منظر دیکھنے کومل سکتا ہے۔ حکومت کے پاس خطرے کا اندازہ لگانے کی کوئی تکنیک نہیں ہے اور نہ ندی نالوں کے کنارے آباد لوگ کتنے تھے ابھی تک اس کا کوئی تجزیہ نہیں ہوپایا۔ ندیاں ،نالے اگر خطرناک شکل اختیار کر جائیں تو کتنا نقصان ہو سکتا ہے نہ اس بات کی پڑتال ہوئی کہ قدرتی آفت کے لحاظ سے کون کونسے گاؤں، شہر خطرے کی زد میں ہیں اور نہ ہی علاقے میں متبادل سڑک بن پائی اور نہ ہی پل نہ ہی ندیوں کاملبہ ہٹ پایا اور نہ سیلاب کنٹرول کے کام پورے ہوپائے ، نہ اترپردیش کا قدرتی آفت مینجمنٹ مشینری قائم ہوپائی ، نہ راڈار لگ پایا، نہ گلیشیئر،جھیلوں کی نگرانی کی مکینیزم قائم ہوپائی۔ قدرتی آفت مینجمنٹ کی زیادہ تر اسکیمیں کاغذوں پر ہیں اور وقت آنے پر ان کا کتنا استعمال ہو پائے گا یہ بھی صاف نہیں ہے۔ قدرتی آفت مینجمنٹ حکام کے بھروسے ہے لیکن ان افسروں کی مصیبت یہ ہے کہ ضلع سطح پر یہ پولیس اور دیگر محکموں کے رابطے میں کم ہی رہتے ہیں۔ باز آبادکاری پروگرام فائلوں میں بند ہیں۔اتراکھنڈ سرکار کے مطابق کل لاپتہ اور متوفی افراد کی تعداد3890 ہے ان میں سے کل 574 لاشیں مل پائی ہیں،42000 گاؤں والے متاثر ہوئے۔ فوج کی بچاؤ کارروائی 16 دن چلی اور فوج نے 10900 شردھالوؤں کو نکالا۔نقصان کا اندازہ ہے 40 ہزار کروڑ۔ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کیدار ناتھ پیدل راستے پر جنگلوں میں پچھلے سنیچر کو 17 اور انسانی ڈھانچے ملے ہیں۔ بھیروں ناتھ مندر کے اوپر بسے جنگلوں سے 8 انسانی ڈھانچے ملے۔ جمعہ کو بھی جنگل سے 12 ہڈیوں کے ڈھانچے ملے۔ سب کا انتم سنسکار کردیا گیا ہے۔ اس درمیان وزیر اعلی ہریش راوت نے سون پریاگ سے وشوناتھ تک لاپتہ لوگوں کی تلاش کیلئے پھر سے گہری کارروائی شروع کرنے کے احکامات دئے ہیں۔ یہ آپریشن 20 دنوں تک چلے گا ا س کے لئے اسپیشل ٹاسک فورس بنائی گئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!